پاکستان

منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف رمضان شوگر مل کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، نیب گواہ

پونے دو سال تحقیقات جاری رہیں،حکومت میرے اکاؤنٹ منجمد کرتی رہی،ایک ایک دھیلے کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے، شہباز شریف
|

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف دائر منی لانڈرنگ ریفرنس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے گواہ نے عدالت کو بتایا ہے کہ شہباز شریف، رمضان شوگر مل کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے۔

لاہور میں احتساب عدالت کے جج نسیم ورک نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف دائر منی لانڈرنگ ریفرنس پر سماعت کی جہاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز پر 18 فروری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

احتساب عدالت میں سماعت کے دوران شہباز شریف نے کہا کہ عدالت مجھے اجازت دے تو میں دو منٹ بات کرنا چاہتا ہوں اور کہا کہ یہاں جو مقدمہ چل رہا ہے یہی سارا مواد نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) لندن بھجوایا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ 'ڈیلی میل' میں میرے خلاف خبر لگائی گئی، میرے اوپر گرانٹ میں کرپشن کا الزام لگایا گیا، ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو)، نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تمام ریکارڈ این سی اے کو بھجوایا۔

انہوں نے کہا کہ میرے اور سلیمان شہباز کے خلاف وہاں تحقیقات ہوئیں، میں غریب الوطنی میں رہ کر وہاں سوچا کہ کچھ کماؤں کیونکہ ملکہ برطانیہ کے سہارے تو نہیں رہنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہاں رہ کر اثاثے بنائے جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔

شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ اس عدالت کے سامنے جو کیس ہے یہ وہی کیس ہے جس کا تذکرہ آج کل ٹی وی اور اخبارات میں ہو رہا ہے، سارے کے سارے ادارے مل کر الٹے ہو گئے لیکن کچھ نہیں نکلا۔

انہوں نے کہا کہ پونے دو سال تحقیقات جاری رہیں، حکومت میرے اکاؤنٹ منجمد کرواتی رہی، ایک ایک دھیلے کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں یکم فروری تک ضمانت

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے نیب کے عقوبت خانے میں رکھا گیا، میں خطاکار انسان ہوں اور کروڑوں بار اللہ سے معافی مانگتا ہوں، کرپشن تو دور کی بات میں نے غریب قوم کے ایک ہزار ارب کی بچت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کئی منصوبوں میں کم سے کم بولی کروائی اور اربوں روپے بچائے، قبر میں بھی چلا جاؤں تو حقائق کبھی بھی نہیں بدلیں گے، یہ سارے حقائق وہی ہیں جو لندن کی عدالت میں پیش کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے 2004 میں پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن واپس بھیج دیا گیا، لندن واپس جا کر سوچا کہ غریب الوطنی کے دوران کماؤں اور ملکہ برطانیہ کا مہمان نہ بنوں، میں نے کرپشن سے پیسہ بنایا ہوتا تو پاکستان واپس نہ آتا۔

شہباز شریف نے کہا کہ مجھے لندن میں رہنا تھا اس لیے اثاثے بنائے تھے۔

اس کے بعد شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے نیب کے گواہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ایڈیشنل رجسٹرار غلام مصطفی کے بیان پر جرح مکمل کی۔

امجد پرویز نے گواہ سے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف کبھی رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر رہے ہیں تو نیب کے گواہ نے جواب دیا کہ شہباز شریف کبھی رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر نہیں رہے۔

اس موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ ان کا بس چلے تو مجھے پاکستان کی تمام کمپنیوں کا ڈائریکٹر بنا دیں، جس پر عدالت میں قہقے لگے جبکہ جج نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ تو کیا آپ قبول کر لیں گے، جس پر عدالت میں دوبارہ قہقہے لگے۔

نیب کے گواہ نے عدالت کے سامنے بتایا کہ میں نے ایسا کوئی ریکارڈ نیب کو فراہم نہیں کیا جس سے ثابت ہو کہ شہباز شریف نے کمپنیوں سے فوائد حاصل کیے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کیس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے تین کمپنیوں سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ یہ حقیقت ہے میں نے کوئی مالی فوائد حاصل نہیں کیے۔

جج نسیم ورک نے شہباز شریف سے کہا کہ آپ کی وجہ سے آپ کے وکیل آج لمبی جرح کر رہے ہیں، شہباز شریف نے جواب دیا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں چلا ہی جاتا ہوں۔

شہباز شریف کے وکیل نے نیب کے گواہ غلام مصطفیٰ پر جرح مکمل کی، جس کے بعد احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس پر سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی۔

شہباز شریف، حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلiمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے چالان میں مرکزی ملزم نامزد

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

مزید پڑھیں: شہباز، حمزہ کیس: ایف آئی اے کو انکوائری رپورٹ جمع کرانے میں تاخیر پر شوکاز نوٹس جاری

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحق ڈار کی مد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف اور حمزہ شہباز (دونوں ضمانت قبل از گرفتار پر) اور سلیمان شہباز (اشتہاری) کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرمکی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2018 سے 2008 عوامیہ عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: پی ٹی آئی امیدوار عمر امین گنڈا پور کی نااہلی کالعدم

خیبر پختونخوا کے وزیر ٹرانسپورٹ کی نااہلی کا فیصلہ کالعدم

طاقتور بیٹری اور کیمرے سے لیس رئیل می کا کم قیمت فون سی 35