پاکستان

اراکین اسمبلی 'اپنی حفاظت' کیلئے سندھ ہاؤس میں مقیم ہیں، پیپلز پارٹی

ارکان پارلیمنٹ سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں، ہر رکن کو وہاں رہنے کا حق ہے، یہ اراکین اپوزیشن اور ہمارے اتحادیوں سے ہیں، شازیہ مری

اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی وزرا کی دھمکیوں اور پارلیمنٹ لاجز پر 10 مارچ کو پولیس کے چھاپے کے تناظر میں اپوزیشن کے متعدد اراکین قومی اسمبلی اس وقت سندھ ہاؤس میں قیام پذیر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعتراف حکومت کے ان الزامات کے درمیان سامنے آیا کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل حکمران جماعت کے کچھ قانون سازوں کو سندھ ہاؤس میں قید کرلیا ہے اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے ایک درجن کے لگ بھگ ایم این ایز 'لاپتا' ہو گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے پارٹی کی انفارمیشن سیکریٹری ایم این اے شازیہ مری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہاں ارکان پارلیمنٹ سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں، ہر رکن کو وہاں رہنے کا حق ہے، یہ اراکین اپوزیشن اور ہمارے اتحادیوں سے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان عوامی پارٹی کا خیبرپختونخوا میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان

فیصل کریم کنڈی نے دعویٰ کیا کہ ان ایم این اے کو وہاں اس لیے رکھا گیاہے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ انہیں اغوا کیا جا سکتا ہے، ایک وزیر کے اس بیان کے بعد کہ اپوزیشن کو خودکش حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کے چھاپے کے بعد متعدد اراکین اسمبلی خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے تھے۔

اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن رہنما حکومتی قانون سازوں کی وفاداریاں خریدنے کے لیے 'پیسے کے بوریوں' کے ساتھ سندھ ہاؤس میں بیٹھے ہیں ساتھ ہی انہوں نے الیکشن کمیشن سے مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا۔

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے بھی ٹوئٹ کیا تھا کہ سندھ پولیس کے تقریباً 400 اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے اہلکار سندھ ہاؤس میں تعینات کیے گئے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو رشوت دینے کے لیے استعمال ہونے والے پیسوں کے 'تھیلوں' کی حفاظت کی جاسکے۔

تاہم پریس کانفرنس میں شازیہ مری نے دعویٰ کیا کہ سندھ ہاؤس میں رہنے والے اراکین کا تعلق پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں سے ہے۔

مزید پڑھیں:اپوزیشن کی سیاست کے یہ آخری ایام ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اراکین کا سراغ لگائے جو 'غائب' ہو گئے ہیں کیونکہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی مزید حمایت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ افراد سندھ ہاؤس میں اپنی مرضی سے قیام پذیر تھے یا ان کی جماعتوں نے انہیں وہاں رہنے کو کہا تھا۔

جوابی الزام میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس کے بجائے کچھ ایم این ایز کو وزیراعظم خان کی بنی گالہ رہائش گاہ پر قید کرلیا ہے، انہوں نے وزیر اعظم کی 'جعلی خبروں' کی بھی تردید کی کہ پی ٹی آئی کے منحرف افراد کو سندھ ہاؤس میں رکھا گیا ہے۔

تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پارلیمنٹیرین سندھ ہاؤس میں اپنی مرضی سے موجودہیں یا انہیں قید رکھا گیا ہے۔

سما ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز الٰہی نے حکمراں جماعت کو اپنے 12 ایم این ایز کو تلاش کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا، جو 'محفوظ حراست' میں ہیں اور انہیں ادھر ادھر جانے کی اجازت نہیں، یہ ایم این اے صرف ووٹنگ کے دن سامنے آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کے پاس اراکین مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں، پرویز الہٰی

ادھر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے حکومتی عہدیداروں کے بیانات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا کہ وہ ارکان کو عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق کی بار بار خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

ایک سوال کے جواب میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پی پی پی نے ابھی تک 25 مارچ کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لانگ مارچ اور جلسہ عام میں شرکت کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا ہے حالانکہ اسے جلسے کی باقاعدہ دعوت دی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم کو ایک اور نوٹس

پی ٹی آئی کے بغیر 5 سال کیلئے قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے، شہباز شریف

پی پی پی کا آصفہ بھٹو کو ڈرون کیمرا لگنےکی تحقیقات کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی کو خط