پاکستان

پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کل ہوگا

اجلاس تقریباً چار گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی آمد پر ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔
|

پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ہنگامہ آرائی کے بعد کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا اور کل (اتوار) ایوان میں نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہفتے کو تین گھنٹے 53 منٹ تاخیر سے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی صدارت میں شروع ہوا۔

دوران اجلاس سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی ایوان میں آمد پر ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا اور حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

سابق وزیر اعلیٰ کی آمد پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی نے ’الوداع الوداع، بزدار الوداع‘ کے نعرے لگائے جبکہ پنجاب اسمبلی کا ایوان لیگی اراکین اسمبلی کے ’شیر شیر‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

اس دوران حکومتی بنچوں کی جانب سے بھی ’شیم شیم اور گیدڑ گیدڑ‘ کے نعرے لگائے گئے جبکہ حکومتی خواتین بھی ’چیری بلاسم‘ کے نعرے لگاتی رہیں۔

ہنگامہ آرائی کے باعث اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ایوان کا اجلاس اتوار کی صبح ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا۔

اتوار کو ہونے والے اجلاس میں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوگی۔

اس سے قبل پنجاب اسمبلی کا اجلاس صبح 11 بجے شروع ہونا تھا لیکن بعد میں اسے کچھ دیر کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرلیا

مسلم لیگ(ق) کے سینئر رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی وزارت اعلیٰ کے خالی ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں اور اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز ہیں اور یہ دونوں رہنما اسمبلی پہنچ گئے تھے۔

جب صحافیوں نے چوہدری پرویز الہٰی سے پوچھا کہ کیا وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں لڑائی میں زیادہ ووٹ حاصل کر پائیں گے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

دوسری جانب حمزہ نے کہا کہ وزارت اعلیٰ حاصل کرنا اپوزیشن کی کوششوں کا حتمی مقصد نہیں بلکہ صوبے کی مجموعی بہتری کے لیے روڈ میپ بنایا جائے گا۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا کہ اگر آج ووٹنگ ہوتی ہے تو یہ مینڈیٹ کی واپسی ہو گی جسے مسلم لیگ (ن) سے ’چوری‘ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے پرویز الٰہی کی ترین گروپ سے رابطے کی کوشش

انہوں نے کہا کہ آج وہ مینڈیٹ جو ہمارا حق تھا اور پنجاب کے لوگوں نے ہمیں دیا تھا، حمزہ شہباز کی کامیابی کی بدولت ہمیں واپس مل جائے گا۔

عظمیٰ بخاری نے پرویز الہٰی پر بھی تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ ووٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ جمعہ کو گورنر چوہدری محمد سرور کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کیے جانے کے بعد سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ کا عہدہ خالی ہوگیا، جس کے بعد نئے صوبائی سربراہ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج کے لیے طلب کر لیا گیا تھا۔

تاہم پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری محمد خان بھٹی نے ہفتے کے روز کہا کہ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں: پنجاب کی سیاسی گرما گرمی میں ترین گروپ نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے محمد خان بھٹی نے کہا کہ آج کے اسمبلی اجلاس میں صرف شیڈول جاری کیا جائے گا اور کوئی دوسری کارروائی نہیں ہوگی۔

انہوں نے آج ووٹنگ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن یہ کہا کہ یہ اسمبلی اسپیکر کا حق ہے کہ وہ اتوار یا پیر کو ووٹنگ کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب کب ہوگا۔

پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ بزدار کے استعفے کی منظوری کے بعد انہیں ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا لیکن اسی نوٹی فکیشن میں انہیں ان کے جانشین کی جانب سے منصب سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔

نوٹیفکیشن کے سلسلوں میں صوبائی حکومت نے تمام 37 صوبائی وزرا، وزیر اعلیٰ کے پانچ مشیروں اور وزیر اعلیٰ کے پانچ معاونین خصوصی کو بھی ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔

عثمان بزدار نے 28 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جب اسی روز سینئر قانون سازوں کے وفد نے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی کے ساتھ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: علیم خان گروپ کا پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ووٹ دینے سے انکار

عثمان بزدار کے استعفے کے بعد پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے اپنا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب حکمران جماعت نے پی ٹی آئی کے متعدد اتحادیوں کے اپوزیشن میں شامل ہونے کے پس منظر میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل اپنے اتحادیوں کی حمایت کو یقینی بنانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔

پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بالترتیب 10 اور 5 نشستوں کے ساتھ حکمراں جماعت کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب ہونے کے لیے 371 رکنی ایوان میں امیدوار کو کم از کم 186 ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔

371 رکنی پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7، 5 آزاد امیدوار اور ایک کا تعلق راہ حق پارٹی سے ہے۔

مزید پڑھیں: (ق) لیگ نے دیر کردی، اپوزیشن کا نامزد امیدوار ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے گا، آصف زرداری

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ سے زیادہ اراکین کی حمایت کے حصول کے لیے پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی کے ناراض جہانگیر ترین گروپ سے رابطہ کیا ہے۔

ڈان کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی کے ایک اور ناراض گروپ سے بھی رابطہ کیا تھا جسے عام طور پر چھینا گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس دوران پرویز الہٰی نے صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے ناراض قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں اور اسی سلسلے میں نیاز خان اور فیصل نیازی سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد اراکین صوبائی اسمبلی نے پرویز الہٰی سے ملاقات کی اور انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث شاعر اشو لال کا ایوارڈ لینے سے انکار

امریکا، پاکستان سے واضح طور پر فاصلہ اختیار کرچکا ہے، ایڈمرل میولن

تحریک عدم اعتماد اور لوٹ سیل میلہ