یوکرین کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، روسی وزیر خارجہ
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین میں روس کی تقریباً 2 ماہ سے جاری فوجی مہم کو ختم کرنے کے لیے ماسکو اور کیف کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے ماسکو میں اپنے قازق ہم منصب کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا کہ مذاکرات اب رک گئے ہیں، 5 روز قبل بھیجی گئی تازہ ترین تجویز کا جواب ابھی تک روس کو نہیں ملا۔
روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ انہیں یہ تاثر مل رہا ہے کہ کیف شاید بات چیت جاری نہیں رکھنا چاہتا۔
سرگئی لاوروف نے مزید کہا کہ مجھے یوکرین کے مختلف نمائندوں بشمول صدر اور ان کے مشیروں کے آئے روز ایسے بیانات سننا بہت عجیب لگتا ہے جنہیں سن کر یہ خیال آتا ہے کہ انہیں ان مذاکرات کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور انہوں نے اپنا فیصلہ اب قسمت پر چھوڑ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا شہریوں کے انخلا کیلئے یوکرین میں جزوی جنگ بندی کا اعلان
کریملن کے معاون ولادیمیر میڈنسکی (جو کیف حکام کے ساتھ روس کے چیف مذاکرات کار ہیں) نے کہا کہ انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب سے بات کی ہے۔
جنگ کے آغاز سے ہی بات چیت جاری ہے لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔
کیف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات انتہائی مشکل ہیں۔
کریملن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یورپی یونین کے سربراہ چارلس مشیل سے بات کرتے ہوئے کیف پر مذاکرات کے دوران مطالبات میں مستقل مزاجی کا فقدان ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بڑا منصوبہ
دریں اثنا روس نے کہا کہ اس کا ارادہ یوکرین کے ایک بڑے حصے کو قبضے میں لینے کے لیے حملہ کرنا تھا لیکن کیف نے کہا کہ حملہ آوروں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
اعلیٰ درجے کے مغربی ہتھیاروں کی تازہ آمد سے یوکرین کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور اس نے کہا ہے کہ اس کی محصور افواج اب بھی تباہ شدہ شہر ماریوپول میں سمندر کنارے اسٹیل ورکس کے اندر موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: روس کی مذاکرات پر رضامندی کے ساتھ یوکرین کے دوسرے بڑے شہر پر چڑھائی
صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین پر حملے کے تقریباً 2 ماہ بعد کریملن نے ماریوپول فتح کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کا کنٹرول اس کے جنگی منصوبوں کے لیے اہم ہے۔
میجر جنرل رستم منیکائیف نے کہا کہ خصوصی آپریشن کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے بعد سے روسی فوج کا ایک ہدف ڈونباس اور جنوبی یوکرین پر مکمل کنٹرول قائم کرنا ہے۔
انہوں نے 2014 میں یوکرین سے الحاق شدہ جزیرہ نما روس کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ کریمیا کو ایک زمینی راہداری فراہم کرے گا۔