پاکستان

راجن پور کے شہری خستہ حال مکانات میں واپس جانے پر مجبور

گاؤں کو جانے والی سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں، ضلعی انتظامیہ ٹوٹے ہوئے راستوں سے رابطہ بحال کرنے میں ناکام رہی، شہری
|

راجن پور میں پانی کم ہونے کے بعد ہزاروں افراد اپنی مدد آپ کے تحت اپنے خستہ حال مکانات میں واپس جانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گاؤں کو جانے والی سڑکیں سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہیں، ضلعی انتظامیہ سڑکوں کو صاف اور ٹوٹے ہوئے راستوں سے رابطہ بحال کرنے میں ناکام رہی ہے، راجن پور میں 7 آبی گزرگاہیں موجود ہیں جن میں کاہا، چاچڑ، پٹوک، سوری شمالی، کالا بگا کھوسرہ، سوری جانوبی اور زنگی کے علاقے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بار بار سیلاب کے باوجود بلوچستان میں گرین بیلٹ قدرتی آفات سے بدستور غیر محفوظ

پانی کا تیز بہاؤ بمبلی، جام پور، ہڑند، چٹول، لنڈی سیداں، لال گڑھ، میران پور، حاجی پور، پل دھوندھی، فاضل پور شہر اور کئی دوسرے چھوٹے دیہاتوں میں موسلادھار بارشوں کی وجہ سے آیا، سیلاب کے دوران 12 افراد جان جاں بحق جبکہ 3 ہزار 192 افراد زخمی ہوئے، اس کے علاوہ سیلاب سے 425 اسکول، 16 ہسپتال، ایک کالج، 3 لاکھ 18 ہزار423 ایکڑ اراضی پر پھیلی فصل اور 28 ہزار646 مکانات کو نقصان پہنچا۔

حکومت کی جانب سے 27 ریلیف کیمپ، 48 میڈیکل اور 55 ویٹرنری کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ 564 ٹیمیں لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں، ضلعی انتظامیہ نے سیلاب سے متاثرہ افراد میں 16 ہزار 685 خیمے، 48 ہزار 122 راشن بیگ، ایک ہزار 430 چٹائیاں، 6 ہزار 866 پینے کے پانی کی بوتلیں، 2 ہزار مچھر دانیاں اور 5 ہزار 583 پکے ہوئے کھانے کی دیگیں بھی تقسیم کیں۔

زیادہ تر شہریوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیلاب کے بعد یہاں دوبارہ نئی زندگی شروع کرنے سے قاصر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلابی پانی کو روکنے کے لیے بَندوں کی مرمت کرنے میں ناکام رہی ہے، زیادہ تر لوگ واپس گھر کو پیدل لوٹ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ خیموں اور کیمپوں میں نہیں رہ سکتے کیونکہ حکومت ان کو کوئی سہولت فراہم نہیں کررہی۔

مزید پڑھیں: بارشوں اور سیلاب کے باوجود ڈی ایچ اے میں پانی کی شدید قلت

سیلاب زدگان کا کہنا تھا کہ’ یہاں ہزاروں لوگوں کے پاس خیمے بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں، حال تو یہ ہے کہ مچھروں کے کاٹنے سے مختلف بیماریوں کا بھی شکار ہیں،’ انہوں نے کہا کہ ’پچھلے دو سے تین ہفتے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اسہال کے امراض کا شکار ہور ہے ہیں، ان کے پاس تو ادویات بھی نہیں ہیں۔ ’

سیلاب زدگان اس امید پر اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ گھروں کی تعمیر نو اور نقصان کا ازالہ خود کر سکیں گے۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ٹیمیں نقصان کے اعدادوشمار حاصل کرنے کے لیے علاقوں کا سروے کررہی ہیں اور ہماری ٹیم کے اہلکار ہر شخص سے رجوع کرکے اُن کی شکایات کو رجسٹر کریں گے۔

عالمی ادارہ صحت، آغا خان ہسپتال اور یونیسف کی میڈیکل ٹیمیں رواں ہفتے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بالخصوص حاملہ خواتین اور بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے میڈیکل کیمپ لگائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھیگی ہوئی کہانیاں

ڈیرہ غازی خان کے چیف ایگزیکٹو (صحت) ڈاکٹر عتیق نے ڈان کو بتایا کہ محکمہ صحت نے 3 بین الاقوامی اداروں سے سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس سے ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے متاثرہ افراد خاص طور پر حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو مناسب طبی امداد فراہم کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور آغا خان ہسپتال کی 25 ٹیمیں ایک ماہ تک زیادہ سے زیادہ یونین کونسلوں میں میڈیکل کیمپ لگائیں گی، ہر یونین کونسل میں روزانہ 2 میدیکل کیمپ لگائے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق سیلاب سے متاثرہ کُل خواتین میں سے 8 فیصد خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں حاملہ ہیں، ایک اندازے کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں سمیت 10ہزار 36 سیلاب متاثرہ خواتین حکومت کی جانب سے 40 یونین کونسل میں قائم کیے گئے میڈیکل کیمپوں میں زیر علاج ہیں، ہر میڈیکل کیمپ میں ویکسی نیشن کاؤنٹر بھی لگائے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: عالمی ادارہ صحت کا سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑنے کا انتباہ

چیف ایگزیکٹو افسر کا کہنا تھا کہ زچگی کرانے والا عملہ کے زیر استعمال 12 ایمبولینس اور 35 دیگر گاڑیاں سیلاب متاثرہ حاملہ خواتین کو صحت کی مختلف سہولیات پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔

ڈاکٹر عتیق کا کہنا تھا کہ تونسہ کی تحصیل سوکر میں بنیادی ہیلتھ یونٹ (بی ایچ یو) کی عمارت کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے، پرانی عمارت کو گرا کر ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت سے نئی عمارت تعمیر کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سوکر میں بنیادی صحت کے مرکز کو نجی عمارت میں فعال کیا گیا ہے جہاں زچگی کی سہولیات 24 گھنٹے موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کو کھانا کھلاتے وقت ریکارڈنگ کیے جانے پرعمران خان پر تنقید

ان کا کہنا ہے کہ تحصیل تونسہ میں 3 بنیادی صحت کے مراکز سمیت 30 کے قریب صحت کی سہولیات مسلسل تیز بارش اور پانی کی شدید بہاؤ کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحصیل ڈی جی خان کے علاقے ماموری، لوہاروالا، یارو اور کوٹ مبارک میں صحت کی سہولیات پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوئیں جبکہ 43 میڈیکل کیمپوں میں سیلاب سےمتاثرہ خواتین کو زچگی کی سہولیات، حفظان صحت کی کٹس، اور فوڈ سپلیمنٹ کے ساتھ 3 موبائل ہیلتھ ہونٹ فراہم کیے جارہے ہیں۔

مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں دوبارہ درخواست دائر

اسلامی اقدار سے متصادم مواد نشر کرنے پر خلیجی ممالک کا ’نیٹ فلکس‘ کو انتباہ

شہری کو غیر قانونی حراست میں رکھنے پر پشاور ہائیکورٹ کا ایس ایچ او کو معطل کرنے کا حکم