پاکستان

نشتر ہسپتال کی چھت پر مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ، طبی اخلاقیات، ایس او پیز کی خلاف ورزی

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری صحت سے رپورٹ طلب کر لی۔

ملتان میں نشتر ہسپتال کے مردہ خانے کی چھت پر لاوارث لاشوں کے پریشان کن مناظر سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے کے بعد، اس تکلیف دہ واقعے کا گہرائی سے جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ یہ کسی بھی غلط چیز سے زیادہ طبی اخلاقیات اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر شور اٹھنے کے بعد پنجاب حکومت بھی حرکت میں آئی اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جب کہ طبی ماہرین نے اس پورے واقعے کو ’غیر انسانی، غیر اخلاقی اور ایس او پیز کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری صحت سے رپورٹ طلب کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان کے نشتر ہسپتال میں لاشوں کی بے حرمتی، تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل

انہوں نے کہا کہ لاشیں ہسپتال کی چھت پر پھینکنا غیر انسانی فعل ہے اور ذمہ دار عملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس کے ارکان میں بیسک سائنسز کے ڈین ڈاکٹر عباس، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ اور کیمپس انچارج ڈاکٹر طارق سعید شامل ہیں۔

دریں اثنا اناٹومی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مریم اشرف نے ایک ویڈیو بیان میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہسپتال میں کس طرح نامعلوم اور لاوارث لاشوں کا معاملہ دیکھا جاتا ہے اور کس طرح بوسیدہ لاشوں کو میڈیکل کے طلبا تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں ایک مردہ خانہ تھا جہاں نامعلوم اور لاوارث لاشیں رکھی جاتی تھیں، جب لاشیں گلنا شروع ہو جاتی تھیں انہیں مردہ خانے کی چھت پر ہوا دار کمروں میں رکھا جاتا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: ماں کی لاش کو 12 سال تک فریزر میں رکھنے کا انکشاف

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ لاوارث لاشیں ہوم اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹس کے قواعد و ضوابط کے تحت میڈیکل کے طلبا کو پڑھانے کے لیے استعمال کی گئیں۔

انہوں نے 500 سے زائد لاشوں کی موجودگی کی خبروں کی بھی تردید کی اور کہا کہ طبی پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ صورتحال کو سمجھیں گے، ساتھ ہی طبی ماہرین سے اپیل کی کہ وہ لوگوں کو طبی مقاصد کے لیے لاشوں کے استعمال کے بارے میں آگاہ کریں۔

قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر نے کہا کہ انہیں ایک مخبر نے اطلاع دی تھی کہ مردہ خانے کی چھت پر لاشیں سڑ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ مردہ خانے پہنچے تو عملہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا، بعدازاں انہیں چھت پر 4 لاشیں کھلی پڑی ملیں جب کہ 25 دیگر کو ایک بند کمرے میں پھینک دیا گیا تھا جو کہ اسٹوریج ایریا کی طرح لگتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: مکان سے ماں بیٹی کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا معمہ حل

طارق زمان گجر نے کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ لاشیں میڈیکل کے طلبا استعمال کرتے ہیں لیکن ’تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے بعد لاشوں کو نماز جنازہ کے ساتھ مناسب طریقے سے دفن کیا جانا چاہیے تھا پر انہیں چھت پر چھوڑ دیا گیا‘۔

لاوارث لاشیں

ملتان سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) خرم شہزاد حیدر نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے پی پی سی کی دفعہ 174 کے تحت لاشیں مردہ خانے میں جمع کرائی تھیں، انہوں نے شناخت کے لیے لاوارث لاشوں کی اخبارات میں تشہیر بھی کی اور قانونی کارروائی مکمل کر کے ان کے ورثا کے حوالے کردیں۔

پولیس افسر نے مزید وضاحت کی کہ پولیس کو دو قسم کی لاشیں موصول ہوتی ہیں، وہ جو کسی جرم سے متعلق ہیں یا وہ جو قدرتی وجوہات کی بنا پر مرتے ہیں، پولیس زخمی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرواتی ہے جبکہ طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرنے والوں کو پوسٹ مارٹم کے بغیر مردہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔

شہزاد حیدر نے کہا کہ اس وقت مردہ خانے میں 74 لاشیں رکھی گئی ہیں، جن میں سڑی ہوئی لاشیں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے پتا چلا کہ چونکہ سڑے ہوئے جسموں کو منجمد نہیں کیا جا سکتا اس لیے انہیں سورج کے نیچے نہیں بلکہ بند پنجرے میں رکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: کار سے صحافی کی مسخ شدہ لاش برآمد

سی پی او نے واضح طور پر کہا کہ لاشوں کو ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے محفوظ کیا جانا چاہیے اور انہیں کھلے مقام پر پھینکنا غیر انسانی ہے۔

طبی مقاصد کے لیے لاشوں کے استعمال کے لیے پولیس کی اجازت کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ کالج نے انہیں اس بارے میں رپورٹ نہیں کیا، تاہم نشتر ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود نے دعویٰ کیا کہ ’ہم لاشوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے پہلے ہمیشہ متعلقہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو تحریری طور پر آگاہ کرتے ہیں‘۔

دریں اثنا نشتر میڈیکل کالج کے ایک سابق پرنسپل لائق حسین صدیقی نے ڈان کو بتایا کہ یونیورسٹی کی جانب سے لاوارث اور نامعلوم لاشوں کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا معمول ہے لیکن انہیں کیمیکل لگانے کے بعد محفوظ کرلیا جاتا ہے اور زور دیا کہ مسخ شدہ لاشوں کو باہر کھلے میں نہیں پھینکا جاتا بلکہ ایک ہوا دار کمرے میں رکھا جاتا ہے جو ان کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ لاشیں کالج کے شعبہ اناٹومی کے حوالے کی گئی تھیں تاکہ انہیں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے جب کہ بدبو کی وجہ سے سڑی ہوئی لاشوں کو مردہ خانے میں نہیں رکھا جاتا، اناٹومی ڈپارٹمنٹ میڈیکل کے طلبا کو پڑھانے کے لیے انسانی جسموں کی ہڈیوں کا استعمال کرتا ہےاور ایسی لاشوں کو کیمیکل لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کا پراسرار ترین کیس، لاش جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کو کچھ نہیں ہوا

لائق صدیقی کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے لاوارث لاشوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد کی وجہ سے جگہ کی کمی کی باعث کچھ کو چھت پر رکھا گیا ہو، تاہم پولیس نے ان کی شناخت اور ورثا کی تلاش کے لیے کوششیں کرنے کے بعد ان لاشوں کو ہسپتال کے حوالے کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بعض لاشوں کے ورثا مہینوں بعد لاوارث لاشوں کا دعویٰ کرتے ہیں، ایسا کئی بار ہوا ہے کہ شعبہ اناٹومی کو کسی لاش کو کیمیکل لگانے اور محفوظ کرنے کے بعد بھی ورثا کو واپس کرنا پڑا۔

تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں جو کچھ دیکھا گیا جس میں کئی لاشیں بند کمرے میں پھینکی گئی تھیں اس بارے میں ان کا خیال تھا کہ ہسپتال نے غفلت کا ارتکاب کیا ہے اور یہ عمل ایس او پیز کے خلاف ہے۔