پاکستان

توشہ خان ریفرنس میں نااہلی: عمران خان کو پارٹی سربراہی سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

قانون کےمطابق نااہل شخص پارٹی چیئرمین کا عہدہ نہیں رکھ سکتا،پی ٹی آئی کا نیا چیئرمین مقرر کرنے کاحکم دیا جائے، ہائیکورٹ سے استدعا
|

لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خان ریفرنس میں نااہلی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے شہری محمد آفاق کی درخواست پر سماعت کی۔

ایڈووکیٹ محمد آفاق ایڈووکیٹ کی جانب سے گزشتہ روز 3 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: عمران خان کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل کردیا ہے اور قانون کے مطابق نااہل شخص پارٹی چیئرمین کا عہدہ نہیں رکھ سکتا، نواز شریف کے معاملے میں عمران خان نے درخواست دائر کی تھی اور نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا تھا۔

عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-95 سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان، تحریک انصاف کی سربراہی کرکے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ عدالت عمران خان کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے عہدے سے ہٹائے اور الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کا نیا چیئرمین مقرر کرنے کا حکم دے۔

مزید پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا

شہری کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق مؤقف سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی

الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان نے دانستہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا تھا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

’ افغانستان نے پاکستان کے ساتھ تجارتی سرپلس رجسٹر کیا’

فخر انجری کے سبب ٹی20 ورلڈ کپ سے باہر، حارث اسکواڈ میں شامل

سابق اہلیہ نے تشدد کے جھوٹے الزامات لگائے، انہیں نوٹس جاری کیا جائے، فیروز خان