دنیا

یروشلم: مسیحیوں کے قبرستان میں درجنوں قبریں مسمار

سیکیورٹی کیمرے کی فوٹیج میں یہودی لباس میں ملبوس 2 لوگوں کو قبرستان میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا گیا، چرچ حکام

مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں مسیحیوں کے قبرستان میں درجنوں قبروں کی بےحرمتی کے واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کوہ صیہون پر واقع پروٹسٹنٹ قبرستان میں پتھر سے بنی قبریں ٹکڑوں میں بکھری ہوئی پائی گئیں۔

خیال رہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مسیحیوں کے تصور کے مطابق یسوع (حضرت عیسیؑ) کا آخری عشائیہ ہوا تھا۔

واقعے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی بشپ ہوسام ناؤم نے بتایا کہ ’30 سے زائد قبروں کے پتھر اور صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے‘۔

چرچ کے حکام نے بتایا کہ ’ہمیں اس نقصان کا علم 3 جنوری کو ہوا جبکہ سیکیورٹی کیمرے کی یکم جنوری کی فوٹیج میں یہودی حلیے میں ملبوس 2 لوگوں کو قبرستان میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا گیا‘۔

یروشلم کے مرکزی چرچ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ان مجرمانہ کارروائیوں کا محرک عیسائیوں کے خلاف پایا جانے والا مذہبی تعصب اور نفرت ہے‘۔

اسرائیلی پولیس نے کہا کہ ’پروٹسٹنٹ قبرستان میں کئی قبروں کو مسمار کیے جانے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں‘۔

مسمار شدہ قبروں میں سے ایک کے سامنے کھڑے ہو کر ہوسام ناؤم نے کہا کہ ’ہم ناصرف مایوس ہیں بلکہ بہت غم زدہ بھی ہیں، یہ قبرستان 19ویں صدی کے وسط میں قائم کیا گیا تھا اور یہ پادریوں، سائنسدانوں اور سیاست دانوں سمیت کئی بڑی شخصیات کی آخری آرام گاہ ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ان قبروں میں بہت اہمیت کے حامل کئی لوگ مدفون ہیں جنہوں نے یروشلم کی تاریخ اور یہاں کے لوگوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے‘۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ غیر اخلاقی فعل توہینِ مذہب ہے‘۔

کوہ صیہون اِس قدیم شہر کی دیواروں کے باہر واقع ہے اور صدیوں سے زائرین کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہے، عبرانی بائبل کے مطابق مملکت اسرائیل کے تیسرے بادشاہ ’کنگ ڈیوڈ‘ کی آخری آرامگاہ کے طور پر یہودیوں کی جانب سے بھی اس جگہ کی تعظیم کی جاتی ہے۔

دسمبر 2021 میں چرچ رہنماؤں نے خبردار کیا تھا کہ یروشلم سمیت پورے اسرائیل میں مسیحی برادری، انتہا پسند گروہوں کے مسلسل حملوں کا نشانہ بن چکی ہے۔

مذکورہ بیان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی حکام کی غیرفعالیت پر تنقید کی گئی تھی جبکہ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اِن الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔