پاکستان

عزیر بلوچ عدم ثبوت کی بنا پر ایک اور مقدمے میں بری

کسی اور کیس میں اگر عزیر بلوچ کو تحویل میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو انہیں فوری رہا کیا جائے، عدالت

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو ہنگامہ آرائی، پولیس پر حملے اور دہشت گردی سے متعلق 11 سال پرانے ایک اور مقدمے میں بری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیاری کے مبینہ گینگسٹر کو ان کے ساتھی ملزم ذاکر عرف دادا کے ساتھ 2012 میں کالاکوٹ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کے دوران ہنگامہ آرائی اور قانون نافذ کرنے والوں پر حملہ کرنے کے الزامات سے بری کیا گیا ہے۔

سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے اے ٹی سی 7 کے جج نے دونوں جانب سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد اپنا محفوظ فیصلہ سنایا۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ عزیر بلوچ اور ان کے ساتھی کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا لہٰذا عدم ثبوت کی بنا پر انہیں بری کردیا جائے۔

انہوں نے جیل حکام کو ہدایت کی کہ اگر کسی اور کیس میں عزیر بلوچ کو تحویل میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔

تاہم عزیر بلوچ انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں زیر التوا دیگر فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں لہٰذا ان کی فوری رہائی کا امکان نہیں ہے۔

استغاثہ کے مطابق مبینہ گینگسٹر عمران نے ہنگامہ آرائی کی اور قانون نافذ کرنے والوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

استغاثہ نے مزید بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی فائرنگ سے زخمی اور ہسپتال میں دوران علاج جاں بحق ہونے والے ملزم عمران نے مبینہ طور پر عزیر بلوچ اور ذاکر کو اپنا ساتھی بتایا تھا۔

ملزم پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 147، 148، 149، 324، 353 کے تحت اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت کالاکوٹ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

لیاری کے مبینہ سرغنہ عزیر بلوچ کو قتل، اقدام قتل، اغوا، بھتہ خوری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مقابلوں کے درجنوں مقدمات کا سامنا ہے۔

اب تک وہ تقریباً 20 مقدمات میں ثبوت کی کمی یا شک کے فائدہ کی وجہ سے بری ہو چکے ہیں، اپریل 2020 میں ایک فوجی عدالت نے انہیں جاسوسی کے مقدمے میں 12 سال قید کی سزا سنائی تھی۔