پاکستان

وفاقی ملازمین کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کیلئے اثاثے ظاہر کرنا لازم

یہ قوانین عدلیہ اور مسلح افواج کے ارکان کو چھوڑ کر صرف وفاقی ملازمین پر لاگو ہوں گے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک اور مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے گڈ گورننس اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے تحت بالآخر بینکوں کو اکاؤنٹس کھولنے کی پیشگی شرط کے طور گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کے اثاثوں کے ڈیکلریشن تک رسائی کی اجازت دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر ٹیکس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ بینکس، اکاؤنٹس کھولتے وقت پہلے مرحلے میں وفاقی ملازمین کے اثاثوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کریں گے اور توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں یہ شرط صوبائی ملازمین تک بھی بڑھائی جائے گی۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ اثاثوں تک رسائی پر کوئی محصول نہیں ہوگا بلکہ یہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت نگرانی کا اقدام ہے۔

تاہم بینک ان معلومات کو عوام سے خفیہ رکھیں گے اور اسے کسی بھی قیمت پر عام لوگوں کو جاری نہیں کریں گے۔

یہ آئی ایم ایف کی شرط تھی جس پر سال 2018 میں اتفاق کیا گیا تھا کہ بینکوں کو سرکاری ملازمین کے اثاثوں کے ڈکلریشن تک رسائی کی اجازت ہوگی، اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے قواعد کو حتمی شکل دینے سے پہلے بینکوں سے رابطہ کیا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے دوسرے روز ایف بی آر نے 2023 کے ایس آر او 80 کے ذریعے قواعد کو شیئرنگ آف ڈکلریشن آف ایسیٹس آف سول سرونٹ کے نام سے نوٹیفائیڈ کیا۔

یہ قوانین عدلیہ اور مسلح افواج کے ارکان کو چھوڑ کر صرف وفاقی ملازمین پر لاگو ہوں گے۔

عام طور پر بینک اکاؤنٹ کھولنے کے وقت آمدنی کا ذریعہ پوچھتے ہیں اور تنخواہ کے معاملے میں بینک ثبوت کے طور پر تنخواہ کی رسید مانگتا ہے۔

تاہم تنخواہ کی آمدنی کے علاوہ سرکاری ملازم اپنی بنیادی تفصیلات کا اعلان بینک افسر کو ون پیجر کے ذریعے کرے گا۔

اس کے بعد بینک افسر اثاثوں کی تصدیق کے لیے اسے ایف بی آر کو بھیجے گا کہ آیا یہ وفاقی ملازم کے ڈیکلریشن میں ظاہر کیا گیا ہے یا نہیں۔

بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان اس پوری خط و کتابت کے لیے طریقہ کار کا ایک مکمل طریقہ کار نوٹیفائیڈ کیا گیا ہے۔

ایف بی آر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ متفقہ شعبوں کی بنیاد پر مذکورہ اعلامیے کی ایک آسان صورت فراہم کرے گا، جو ایک سرکاری ملازم نے ایف بی آر کے پاس دائر کردہ اپنے الیکٹرانک ڈیکلریشن میں بنائے تھے۔

قواعد کے مطابق بینک میں عملدرآمد کا سربراہ آسان ڈکلریشن کی درخواست یا رسید کے لیے واحد مجاز ای میل ایڈریس استعمال کرے گا۔

ہر بینک 4 افراد کو مطلع کرے گا کہ وہ ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر سے خط و کتابت کریں۔

ڈیٹا کو خفیہ رکھنے کے لیے بینک کے مجاز عہدیدار ایف بی آر کو ایک ڈکلریشن جمع کرائیں گے کہ وہ فراہم کی جانے والی معلومات کی رازداری کو برقرار رکھے گا اور اسے کسی شخص کو ظاہر نہیں کیا جائے گا۔

معلومات کی درخواست موصول ہونے کے بعد ایف بی آر مجاز ای میل کے ذریعے پانچ ورکنگ ٖڈیز میں آسان یا مختصر معلومات فراہم کرے گا۔

ایف بی آر صرف غیر معمولی معاملات میں درخواست کو مسترد کر سکتا ہے، بشمول جب اثاثہ جات کا ڈکلریشن دائر نہیں کیا گیا ہو، سرکاری ملازم اس آرڈیننس کے تحت نہیں آتا ہو یا اسی طرح کی کسی اور وجہ سے ایف بی آر درخواست کردہ معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہو۔

ایف بی آر درخواست کی وصولی کے پانچ روز کے اندر بینک کو فیصلے اور انکار کی وجہ سے مطلع کرے گا، تنازع کی صورت میں معلومات کا محافظ ہونے کی حیثیت سے ایف بی آر کا فیصلہ غالب ہوگا۔

بینک، خود کو موصول ہونے والی معلومات کے استعمال کے ساتھ ساتھ کامیابی سے کھولے گئے نئے اکاؤنٹس کے سلسلے میں کسٹمر کی مستعدی کے نتائج اور اس معلومات سے بینک کو اپنے کلائنٹ سے تعلقات قائم کرنے میں کس طرح مدد ملی اس پر دو سالانہ فیڈ بیک فراہم کرے گا۔

نیٹ فلکس کا پاس ورڈ شیئرنگ کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان

گوانتاناموبے جیل سے پاکستانی قیدی رہا، بیلیز منتقل

ٹیلی کام کمپنیاں لائسنس کی تجدید ڈالرز میں کرنے پر حکومت سے نالاں