دنیا

بھارت: ہندو انتہا پسند تنظیم کی حمایت یافتہ نیوز ایجنسی، سرکاری ٹی وی کو خبریں فراہم کرے گی

دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو چلانے والی پرسار بھارتی نے 14 فروری کو ہندوستھان سماچار کے ساتھ ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے۔

بھارت کا سرکاری نشریاتی ادارہ ’پرسار بھارتی‘ اپنی روزانہ کی نیوز فیڈ کے لیے اب پوری طرح سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت یافتہ نیوز ایجنسی ’ہندوستھان سماچار‘ پر انحصار کرے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں بھارتی نیوز ادارے ’دی وائر‘ کے حوالے سے بتایا گیا کہ دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو چلانے والی پرسار بھارتی نے 14 فروری ہندوستھان سماچار کے ساتھ ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے۔

یہ فیصلہ پرسار بھارتی کے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے ساتھ اپنی سبسکرپشن منسوخ کرنے کے تقریباً دو سال بعد سامنے آیا، جو کہ بھارت کی سب سے بڑی اور قدیم ترین پروفیشنل نیوز ایجنسی ہے۔

ہندوستھان سماچار 2017 سے پرسار بھارتی کو ’تشخیص کی بنیاد‘ پر اپنی وائر سروسز مفت فراہم کررہا ہے۔

تاہم دونوں اداروں نے اب ایک باضابطہ معاہدہ کیا ہے جس میں پرسار بھارتی مارچ 2025 میں ختم ہونے والی دو سال کی مدت کے لیے ہندوستھان سماچار کو تقریباً 7 کروڑ 70 لاکھ روپے ادا کرے گی۔ اس درمیان مئی 2024 میں بھارت میں عام انتخابات بھی ہوں گے۔

کئی زبانوں میں کام کرنے والی خبر رساں ایجنسی ہندستان سماچار کی بنیاد 1948 میں شیو رام شنکر آپٹے نے رکھی تھی، جو کہ آر ایس ایس کی ایک سینئر شخصیت اور نظریاتی ایم ایس گولوالکر کے ساتھ وشوا ہندو پریشد کے شریک بانی تھے۔

جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ہندوستھان سماچار سرکاری اشتہارات سے باقاعدہ فائدہ اٹھاتی رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایجنسی کا جھنڈے والان میں واقع اپنے چھوٹے دفتر کو آر ایس ایس کے دہلی دفتر کے قریب نوئیڈا میں ایک بڑے دفتر میں منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔

پرسار بھارتی کا ہندوستھان سماچار کو باضابطہ طور پر شامل کرنے کا تازہ ترین اقدام گزشتہ چند سال میں خبر رساں ایجنسیوں پی ٹی آئی اور یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی) کے ساتھ نریندر مودی حکومت کی تلخیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

سال 2014 کے بعد سے مودی حکومت کو پی ٹی آئی کی خبروں کی آزادانہ کوریج سے بڑے اور معمولی مسائل رہے ہیں، تاہم معاملات اس وقت سامنے آئے جب 2020 میں پرسار بھارتی کے ایک سینئر عہدیدار سمیر کمار نے پی ٹی آئی کے چیف مارکیٹنگ افسر کو خط لکھا تھا کہ لداخ کی جھڑپ پر نیوز ایجنسی کی ’حالیہ خبروں کی کوریج‘ قومی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے اور اس نے بھارت کی علاقائی سالمیت کو مجروح کیا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو سرکاری براڈ کاسٹر کی جانب سے ادارتی غلطیوں پر بار بار متنبہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں غلط خبریں پھیلائی گئیں جو مفاد عامہ کو نقصان پہنچاتی تھیں۔

لداخ میں سرحدی جھڑپ کے تناظر میں 2020 میں بھارت میں چین کے سفیر اور چین میں بھارتی سفیر کے ساتھ پی ٹی آئی کے انٹرویوز سے بھی حکومت بڑی حد تک ناراض ہوئی تھی۔

حکومت نے محسوس کیا کہ اول تو چینی سفیر کا انٹرویو نہیں کیا جانا چاہیے تھا لیکن پی ٹی آئی کے انٹرویو میں چینی مداخلت پر بھارتی سفیر وکرم مصری کا تبصرہ بہت شرمندگی کا باعث بنا کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم کے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ بھارت کے کسی علاقے پر سمجھوتہ نہیں ہوا۔

پرسار بھارتی کے ایک نامعلوم عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کی ملک دشمن رپورٹنگ اسے اس قابل نہیں بناتی کہ مزید تعلقات جاری رکھے جائیں۔‘

ہندوستھان سماچار کا اعلانیہ مشن ’قوم پرست‘ نقطہ نظر سے خبریں پیش کرنے کا ہے جو مالی بحران کے بعد 1986 میں اپنا کام بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا، تاہم 2002 میں اٹل بہاری واجپائی کے دورِ اقتدار میں اسے آر ایس ایس نے بحال کیا تھا۔