پاکستان

حکومت کی شرح نمو کم ہو کر 0.8 فیصد رہنے کی پیش گوئی

وزارت خزانہ کے اقتصادی مشاورتی ونگ کی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلے مالی سال میں بھی مہنگائی کی شرح بلند رہے گی۔

حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ (جولائی سے دسمبر) میں قرضوں میں عدم توازن کے بعد خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مالی ضروریات بدستور بلند رہیں گی اور اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد ہوگی جو رواں برس 28.5 فیصد ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کے اقتصادی مشاورتی ونگ نے قرضوں سےمتعلق اپنی جائزہ رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ قرضوں کے خطرات بدستور بلند ہیں، قرضوں اور مالی ضروریات کے حوالے سے جی ایف این سے جی ڈی پی کی شرح میں اضافے اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے مالی سال 2023 میں حد کی وجہ سے خطرات نمایاں ہوگئے ہیں۔

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ایکسچینج ریٹ میں منفی اثرات قرضوں کا تناسب مالی سال 2026 تک جی ڈی پی کی حد 70 فیصد سے اوپر تک بڑھائیں گے اور حکومت نے پہلی مرتبہ شرح نمو کا تخمینہ 0.8 فیصد لگایا ہے جو بجٹ اندازے کے 5 فیصد کے مقابلے میں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے 0.4 فیصد سے 0.6 فیصد تک کے امکان سے زیاد ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی ماحول میں عدم استحکام، کرنسی کی گراوٹ اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے مالی سال 2023 میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 28.5 فیصد رہنے کا خدشہ تھا اور اگلے مالی سال میں 21 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

وزارت خزانہ نے اندازہ لگایا تھا کہ متوازن ایکسچینج ریٹ، زراعت میں بہتری، سیاسی استحکام اور بہتری کے اندازے کی روشنی میں مہنگائی کی شرح 7.5 فیصد سے کم ہو کر 6.5 رہے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے مطابق حکومت نے اعتراف کیا کہ موجودہ مہنگائی کا دباؤ کم ہونے میں وقت لگے گا اور یہ کساد بازاری کی عوض نہیں ہونا چاہیے تاہم جو اقدامات کیے گئے ہیں اس سے مالی سال 2026 تک مہنگائی کی شرح بتدریج کم ہو کر 6.5 تک آجائے گی۔

جائزے میں تصدیق کی گئی ہے کہ قرضوں کی سرکاری ضمانتیں دسمبر 2022 میں 550 کھرب روپے سے زائد تک پہنچ گئی تھیں جو مالی سال 2022 کے اختتام کے مقابلے میں 7 فیصد اضافہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ اضافہ شرح سود میں اضافہ اور مالی سال 2023 کے 6 ماہ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 11 فیصد گراوٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقامی سطح پر قرض مجموعی قرض کا 62.8 فیصد ہے اور دوسری جانب مجموعی قرضوں کا 37.2 فیصد بیرونی قرض ہے جو مختلف کثیرالجہتی ترقیاتی اداروں، دو طرفہ قرض دہندگان اور کمرشل ذرائع سے ملا ہے۔

مالی سال 2023 کے پہلے 6 ماہ کے دوران آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی کامیاب تکمیل پر 1.66 ارب ڈالر کے اجرا کے ساتھ ساتھ چین سے ایک ارب ڈالر کا رول اوور اور سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کی ڈپازٹ کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

علاوہ ازیں حکومت کو بین الاقوامی اداروں سے 3.298 ارب ڈالر وصول ہو گئے ہیں، اسی طرح حکومت نے 2.72 ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر بالترتیب بین الاقوامی کمرشل قرضے اور بین الاقوامی سکوک کی مد میں ادا کر دیے ہیں۔

مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کی بنیاد پر قرضوں کی ضمانتوں میں روپے کی قدر میں کمی اور بنیادی خسارے کی وجہ سے 75.8 فیصد سے اضافہ ہو کر 78 فیصد ہوگیا تھا اور مالی خسارے کے لیے فنڈز کے اجرا کا بنیادی ذریعہ مقامی قرض تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں بدترین سیلاب، سخت مالی صورت حال، ناموافق عالمی معاشی ماحول میں مالی سال 2023 میں حقیقی جی ڈی پی کے شرح نمو کا تخمینہ 0.8 فیصد ہے، شرح نمو کا تخمینہ مالی سال 2026 تک 5.5 فیصد لگایا گیا تھا تاہم پائیدار اقتصادی ترقی یقینی بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔

اقتصادی ونگ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی مدت میں 3.5-5.5 فیصد شرح نمو کا اندازہ قیمتوں میں استحکام، مالی اور بیرونی شعبے کی پائیداری کے ساتھ لگایا گیا تھا۔

چین پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات میں وسعت کا خواہاں

ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ساڑھے 11 بجے ہوگی

ملک بھر میں بارشوں کے سلسلے کے پیشِ نظر حکومت کا احتیاط کرنے کا مشورہ