صحت

عالمی ادارہ صحت نے مصنوعی مٹھاس کے خطرے سے خبردار کردیا

مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے ٹائپ 2 ذیابطیس، قلبی امراض اور کم عمر میں موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، ڈبلیو ایچ او

اگر آپ بھی اپنے کھانوں یا مشروبات مثال کے طور پر چائے یا کافی میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں تو خبردار ہوجائیں، کیونکہ اس کے استعمال سے صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ مصنوعی مٹھاس وزن کم کرنے میں مدد ثابت نہیں ہے۔

اقوام متحدہ ہیلتھ ایجنسی کی جانب سے نئے رہنما خطوط جاری کیے گئے جس میں مصنوعی مٹھاس کے استعمال کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ دستیاب کردہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ مصنوعی مٹھاس نوجوانوں اور بچوں کے وزن کم کرنے کے حوالے سے طویل مدتی فائدے نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے ٹائپ 2 ذیابطیس، قلبی امراض اور کم عمر میں موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ لاکھوں لوگ روزانہ کافی، ڈائٹ سوڈا اور کھانے کی اشیا میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ چینی کے استعمال سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے مصنوعی مٹھاس کو چینی کا بہترین متبادل مانا جاتا ہے۔

تاہم صحت کے حوالے سے مصنوعی مٹھاس سنگین خطرات پیدا کرسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے غذائیت اور فوڈ سیفٹی فرانسسکو برانکا نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی چینی کی جگہ مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے سے صحت پر طویل مدتی فوائد نہیں پہنچتے اور وزن بھی کم نہیں ہوتا۔

وہ کہتے ہیں کہ لوگ اگر چینی کا استعمال کم کرنا چاہتے ہیں یا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں تو انہیں پھل استعمال کرنے چاہیے جس میں قدرتی مٹھاس شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مصنوعی مٹھاس کی کوئی غذائی اہمیت نہیں ہے، صحت کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کو شروع سے ہی چینی کا استعمال کو کم کردینا چاہیے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مصنوعی مٹھاس میں ایسی سلفیم کے (acesulfame K)، ایس پرٹیم (aspartame)، ایڈونٹیم (advantame)، سائکلمیٹس (cyclamates)، نیوٹیم (neotame)، سیکرین (saccharin)، سکرالوس (sucralose)، سٹیویا (stevia) اور سٹیویا ڈیریویٹو (stevia derivatives) شامل ہیں،۔

اسی دوران اقوام متحدہ ہیلتھ ایجنسی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے جاری رہنما خطوط کو مشروط سمجھا جائے کیونکہ مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے ہونے والی پیچیدگیاں اور اس حوالے سے کی گئی جانچ پڑتال کی وجہ سے ٹھوس نتائج اخذ کرنا مشکل ہے۔

غذائی ماہرین نے بھی ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کی نشاندہی کی، ان کے مطابق یہ رپورٹ مشاہداتی مطالعات پر مبنی تھی جو مصنوعی مٹھاس اور وزن یا بیماری کے درمیان براہ راست کوئی تعلق قائم نہیں کرسکی۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں غذائیت اور وبائی امراض کی ماہر نیتا فوروہی نے زور دیا کہ مصنوعی مٹھاس کا استعمال مختصر مدت میں وزن کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اصل مقصد طویل مدتی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے، اور مستقبل میں ٹائپ 2 ذیابطیس اور قلبی امراض جیسی بیماریوں سے بچنے کے لیے مصنوعی مٹھاس کا استعمال مناسب نہیں ہے’۔

جوہری تابکاری سے بچاؤ کی دوا کی انسانوں پر پہلی آزمائش

اگر آپ ناک کی بدبو سے پریشان ہیں تو ان تجاویز پر عمل کریں

گردوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد میں امراض قلب بڑھنے کا انکشاف