پاکستان

تعطل کے شکار جائزوں کے بعد حکومت کی نظریں آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام پر

ملک کو آئندہ مالی سال کے دوران بیرونی فنانسنگ میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہوگی جو آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کا نیا بیل آؤٹ پروگرام ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ قرض دہندہ اس بات پر بضد ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے لیے 6 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کے خلاکو پُر کرے اور 30 جون کو موجودہ قرض کے معاہدے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے اگلے سال کے بجٹ کے فریم ورک پر سمجھوتہ کر لے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومت باضابطہ طور پر ایک نئے پروگرام کے لیے نویں سہ ماہی کا جائزہ مثبت انداز میں مکمل کرنے کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ سے آئندہ مالی سال کے اوائل میں رجوع کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ قرض کا ایک نیا معاہدہ اہم ہے کیونکہ ملک کو آئندہ مالی سال کے دوران بیرونی فنانسنگ میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہوگی، جو آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر کمرشل بینکوں اور کیپٹل مارکیٹوں سے نہیں اٹھائی جا سکتی۔

اس کا مطلب ہے کہ 10ویں اور 11ویں جائزے رواں ماہ کے آخر میں پروگرام کی مدت ختم ہونے سے پہلے مکمل نہیں کیے جا سکتے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے ایک پارلیمانی پینل کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان حالیہ رابطے کے دوران پاکستان سے کہا گیا کہ وہ 6 ارب ڈالر کے نئے قرضوں کا بندوبست کرے، تاکہ 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام پر فنانسنگ کے خلا کو پر کیا جاسکے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے سامنے بیان دیتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان کی پوری اقتصادی ٹیم نے بھی ورچوئل مباحثوں میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عہدیداروں نے دلیل دی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کفایت شعاری اور درآمدی کنٹرول کو کم کرکے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو کم کیا گیا ہے اور 6 ارب ڈالر کی ضرورت نہیں جسے آئی ایم ایف کو قبول کرنا چاہیے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ آئی ایم ایف نے اس سے قبل عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے 6 ارب ڈالر کی بیرونی ضروریات میں سے نصف کی پیشگی یقین دہانی مانگی تھی جس پر حکام نے سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر کے ذریعے اس کا بندوبست کیا، جنہوں نے براہ راست آئی ایم ایف کو تصدیق بھی کی۔

عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ 9 فروری سے پہلے کے عرصے میں جب دونوں فریقین نے عملے کی سطح پر مذاکرات مکمل کیے، پاکستان نے 3 ارب ڈالر کی ادائیگی بھی اس یقین کے ساتھ کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ مارکیٹ کی بےیقینی صورتحال کو دور، تاثرات کو بہتر اور آئی ایم ایف فنڈنگ کے تعطل کی وجہ سے کمرشل بینکوں کے روکے گئے قرضوں کو کھول سکتا ہے۔

تاہم قرض دہندہ نے اصرار کیا کہ پاکستان عملے کی سطح کے معاہدے سے پہلے 6 ارب ڈالر کے مالیاتی فرق کو پورا کرے۔

اس مرحلے پر آئی ایم ایف نے حکومت کے بجٹ اعداد و شمار مانگے ہیں جو نویں کے بجائے 10ویں سہ ماہی جائزے کے لیے درکار تھے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ’حالانکہ 9ویں جائزے کے لیے ان کی ضرورت نہیں تھی اس کے باوجود ہم نے بجٹ کے اعداد و شمار کا اشتراک کرنے پر اتفاق کیا اور ہم ان چیزوں کو فنڈ کے ساتھ پہلے ہی شیئر کر چکے ہیں‘۔

انہوں نے آئی ایم ایف کے سخت مؤقف کو گزشتہ حکومت کی جانب سے فنڈ کے ساتھ وعدوں کی خلاف ورزی سے جوڑا، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف اب زبانی یقین دہانیوں کے بجائے اقدامات پر زور دے رہا ہے۔

عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بجٹ کی حکمت عملی اور فریم ورک قرض دہندہ کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور ’اب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ واپس باقاعدگی سے بات کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ بڑے پیمانے پر آئی ایم ایف کی ضروریات کے مطابق ہے، اسٹرکچرل اصلاحات کو یکے بعد دیگرے حکومتوں نے طویل عرصے سے مؤخر کیا حالانکہ ان سے ملک اور اس کے عوام کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وسیع پیمانے پر ان (بجٹ) اعداد و شمار کے ساتھ، ہم انہیں (آئی ایم ایف) کو معاہدے کے لیے راضی کرنے کے لیے پر امید ہیں۔‘

زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ اندوزوں کو عام معافی کی پیشکش کے متبادل آپشنز کی اطلاعات کے بارے میں ایک سوال پر، ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ حکومت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہی اور وہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پرعزم ہے اور اسے مکمل کرنے کی منتظر ہے۔