دنیا

ایران: شاہ چراغ مزار پر فائرنگ کے بعد 8 ’غیر ملکی‘ مشتبہ افراد گرفتار

حملے کے فوراً بعد اتوار کی رات مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا جس کی شناخت تاجکستان سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ نوروزوف کے نام سے ہوئی تھی۔

ایرانی سیکورٹی فورسز نے ایک مزار پر ایک شخص کو قتل کرنے والے مسلح شخص کو حراست میں لینے کے بعد 8 غیر ملکی مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق ایران کے جنوب میں صوبہ فارس کے دارالحکومت شیراز میں واقع شاہ چراغ کے مقبرے پر بڑے پیمانے پر ہوائی فائرنگ کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ حملہ ہوا جس کی ذمہ داری شدت پسند گروپ ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔

صوبہ فارس کے چیف جسٹس کاظم موسوی کے حوالے سے عدلیہ کی آن لائن ویب سائٹ ’میزان‘ نے بتایا کہ ’دہشت گردانہ حملے سے تعلق کے شبے میں 8 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کوئی وضاحت دیے بغیر کہا کہ ’گرفتار کیے گئے تمام افراد غیر ملکی ہیں‘۔

حملے کے فوراً بعد اتوار کی رات مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور میزان نے اس کی شناخت تاجکستان سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ نوروزوف کے نام سے کی تھی۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق اتوار کو ہونے والی فائرنگ میں ایک شخص ہلاک اور 8 دیگر زخمی ہوئے تھے۔

گولیوں سے کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں اور فائرنگ کے بعد محراب اور کالونیڈ کمپلیکس کے ایک صحن میں زمین پر خون کے دھبے دیکھے گئے تھے۔

فوری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم فارس کے صوبائی گورنر محمد ہادی ایمانیہ نے داعش کے شدت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے ’دو دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا بدلہ لینے‘ کی کوشش کی ہے جنہیں گزشتہ سال مزار پر فائرنگ کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔

ایک روز قبل وزیر داخلہ احمد واحدی نے سرکاری ٹی وی کو سائٹ کے دورے کے دوران بتایا کہ دہشت گرد ایران سے باہر ایک ’نیٹ ورک آپریٹنگ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔

یورپی یونین اور عراق، روس اور فرانس سمیت کئی ممالک نے اتوار کو ہونے والی فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے کہا کہ ’بغداد ہر قسم کی دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے‘۔

گزشتہ سال 26 اکتوبر کو شیراز میں مزار پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری بعد میں داعش نے قبول کی تھی۔

میزان نے اس وقت کہا تھا کہ ایران نے 8 جولائی کو دو افراد کو ’زمین پر بدعنوانی، مسلح بغاوت اور قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے‘ کے جرم میں قتل کے الزام میں سرعام پھانسی دے دی۔

کاظم موسوی کے مطابق اس کیس میں تین دیگر مدعا علیہان کو داعش کا رکن ہونے کی وجہ سے 5، 15 اور 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

نومبر میں تہران نے کہا تھا کہ افغانستان، آذربائیجان اور تاجکستان سے 26 ’تکفیری دہشت گردوں‘ کو فائرنگ کے واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے، ایران میں تکفیری کی اصطلاح عام طور پر جہادیوں یا سنی مکتبہ فکر کے حامیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

شاہ چراغ کا مقبرہ آٹھویں شیعہ امام، امام رضا کے بھائی احمد کی قبر ہے اور اسے جنوبی ایران کا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ سال فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایران میں خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔

الیکشن کمیشن نے میڈیا پر قبل و بعد از انتخابات پولز کرانے پر پابندی لگادی

الیکشن کمیشن کیلئے صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کا معاملہ پیچیدہ ہونے کا خدشہ

بھارت نے متحدہ عرب امارات کو پہلی بار روپے میں تیل کی ادائیگی کردی