دنیا

پی وی نرسمہا راؤ ’پہلے بی جے پی وزیراعظم‘ تھے، مانی شنکر ایر

نرسمہا راؤ نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہاری یاترا سے اختلاف نہیں کرتا لیکن سیکیولرزم سے متعلق تمہاری تشریح سے اختلاف کرتا ہوں، سابق وزیر

کانگریس کے سابق وزیر مانی شنکر ایر نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ پی وی نرسمہا راؤ بھارت کے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیراعظم تھے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اپنی سوانح عمری ’میمائرز آف اے میورک (ایک آوارہ کی یادیں)‘، جو کہ 1941 سے 1991 کی یادوں پر مشتمل ہے، کی تقریب رونمائی میں نشریاتی ادارے ’دی وائر‘ سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے سابق وزیر مانی شنکر ایر نے کہا کہ ’میں نے مشاہدہ کیا کہ سیکیولرزم پر گفتگو کے دوران سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کتنے ’فرقہ وارانہ‘ تھے۔

پی وی نرسمہا راؤ مئی 1991 میں ایک انتخابی ریلی کے دوران راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس پارٹی کی قیادت کے لیے سمجھوتہ کرنے والے امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور دسمبر 1992 میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کو مسمار کرنے کے بعد وہ سارا دن عوام کی نظروں سے غائب رہے۔

سابق وزیر مانی شنکر ایر نے کہا کہ جب میں رمیش ورام سے ایودھیا تک رام رحیم یاترا پر تھا تو مجھے اڈیشا سے دہلی واپس طلب کیا گیا اور نرسمہا راؤ نے مجھے کہا تھا کہ ’میں تمہاری یاترا سے اختلاف نہیں کرتا لیکن سیکیولرزم سے متعلق تمہاری تشریح سے اختلاف کرتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے ان سے پوچھا کہ سیکیولرزم سے متعلق میری تشریح میں کیا غلط ہے، اس پر ان کا وہ جواب جو میرے دل میں اور میری روح پر نقش ہے جب انہوں نے کہا کہ ’مانی تم نہیں سمجھتے کہ یہ ایک ہندو ریاست ہے۔‘

سابق وزیر نے کہا کہ اس جواب پر میں اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور ان سے کہا کہ بی جے پی یہی کہتی ہے لیکن یہ ہندو ملک نہیں ہے۔

مانی شنکر ایر نے مزید کہا کہ میں نے وزیراعظم کو جواب دیا کہ ہم ایک سیکیولر ملک ہیں اور اس سیکیولر ملک میں بھلے اکثریت ہندوؤں کی ہو، لیکن یہاں 20 کروڑ مسلمان بھی ہیں اور اس کے علاوہ مسیحی، یہودی، پارسی اور سکھ بھی رہتے ہیں، تو ہم ہندو ملک کیسے ہوئے، ہم صرف سیکیولر ملک ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ پی وی نرسمہا راؤ کا ذہن اتنا متعصب، اتنا فرقہ پرست تھا کہ وہ اس ملک کو سیکیولر راستے سے فرقہ وارانہ راستے پر لے گیا اور وہ 1991 سے 1996 تک بھارتی وزیراعظم رہے۔

پی وی نرسمہا راؤ کے بعد اٹل بہاری بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اگرچہ ان کی مدت عام طور پر 1991 میں معاشی لبرلائزیشن اصلاحات کے آغاز سے وابستہ ہے اور ان کے دور میں بابری مسجد کا مسمار ہونا اور اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھنے میں آئے، جن میں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں چلی گئیں۔

مانی شنکر ایر کے خیالات میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کے اس دعوے کی گونج سنائی دی کہ اگر نہرو-گاندھی پشت پر ہوتے تو مسجد کبھی مسمار نہ ہوتی۔

مانی شنکر ایر کی کتاب، انڈین فارن سروس میں بطور سفارت کار پاکستان میں ایک اہم مدت کے ساتھ ان کے سفر پر روشنی ڈالتی ہے جو کہ دسمبر 1978 سے جنوری 1982 تک کراچی میں قونصل جنرل کی حیثیت سے رہے اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ تعلقات پر بھی کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں 1984 میں سکھ مخالف فسادات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور تشدد پر قابو پانے کے لیے اس وقت کے حکومتی فیصلوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

مانی شنکر ایر نے اپنے کتاب میں لکھا ہے کہ ’مجھے بہت شک تھا اور میں سکھوں کے قتل عام کی وجہ سے ان (وزیراعظم) کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹنگ بوتھ پر گیا تھا، لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا نام ووٹنگ فہرست میں نہیں تھا اس لیے میں ان کے خلاف ووٹ نہیں دے سکا۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’لیکن اس کے باوجود انہوں نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور پھر اگلے پانچ برسوں تک میں نے دیکھا کہ وہ کتنے شاندار آدمی تھے، اور اس شخص کا وہ شاندار کردار میڈیا نے اور خاص طور پر ان تمام غداروں نے بھی عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا جو انہیں دھوکا دے کر چلے گئے اور یہ بائیں بازو کے لوگ اور لبرل لوگ ہیں جو بی جے پی کو واپس لائے۔

سابق وزیر نے لکھا کہ کیونکہ اس وقت بی جے پی کے پاس دو نشستیں تھیں لیکن وی پی سنگھ کی وجہ سے انہیں 88 سیٹیں ملیں اور اب پچھلے نو برسوں سے ہم اس خوفناک اکثریتی، آمرانہ حکمرانی کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ میں صرف دعا کرتا ہوں، لیکن افسوس میں نماز نہیں پڑھ سکتا، کیونکہ میں ایک ملحد ہوں، لیکن میں طاقتوں سے دعا کرتا ہوں کہ پچھلے نو برسوں کے اس خوفناک دور کو 2024 میں کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔

قبل ازیں کتاب کی رونمائی کے موقع پر سینئر صحافی ویر سنگھوی سے بات کرتے ہوئے مانی شنکر نے کراچی میں تعینات ہونے کے دوران اپنے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت بہت ضروری ہے۔

مانی شنکر ایر نے انٹرویو میں کہا کہ ’کیا پاکستان ہمارا دشمن ملک ہے، میرا جواب ہے کہ پاکستانی ہمارے دشمن نہیں ہیں، حکومتِ پاکستان ایسی چیزیں کرتی ہی جو اسے ہمارا دشمن بناتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے طریقوں سے وہ رد عمل کا اظہار کرتے ہیں یا مشتعل کرتے ہیں، جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ہم سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن ایک میز پر بیٹھ کر ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، ہم ان سے بات کرنے کی ہمت کیوں نہیں رکھتے؟

مانی شنکر ایر نے کہا کہ پاکستان، موجودہ بھارت میں خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں بن رہا ہے۔

آنتوں کے مسائل سے پارکنسنز بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

’نسیم شاہ ایک بار پھر افعانستان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے‘

لفظ تماشا: ’بیمار‘ اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے