پاکستان

بلوچستان، سندھ کے کیش سرپلس کے سبب مالیاتی خسارے میں معمولی کمی

مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بلوچستان نے سب سے زیادہ 71 ارب 16 کروڑ روپے اور سندھ نے 19 ارب 9 کروڑ روپے کیش سرپلس رپورٹ کیا۔

پاکستان کا مجموعی مالیاتی خسارہ (آمدنی اور اخراجات میں فرق) خام ملکی پیداوار کے 0.9 فیصد پر آگیا، یہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں ایک فیصد کے مقابلے میں معمولی طور پر کم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران مالیاتی خسارہ بڑھ کر 962 ارب 80 کروڑ روپے تک پہنچ گیا، جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 819 ارب 30 کروڑ روپے تھا۔

تاہم اگر بلوچستان اور سندھ کی جانب سے کیش سرپلس نہ ہوتا تو مالیاتی خسارہ بڑھ کر 10.14 کھرب روپے ہو سکتا تھا، اس کے برعکس مالی سال 2023 کی پہلی سہ ماہی میں تمام چاروں صوبوں کا کیش سرپلس ہوا تھا، جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کا خسارہ 10.37 کھرب روپے ریکارڈ کیا گیا تھا۔

پہلی سہ ماہی میں کل ریونیو جی ڈی پی کے 2.5 فیصد رہا، جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے 2.4 فیصد کے مقابلے میں معمولی اضافہ ہے، بنیادی طور پر نان ٹیکس ریونیو بڑھنے کے سبب یہ اضافہ دیکھا گیا، جو مالی سال 2024 کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران جی ڈی پی کے 0.4 فیصد رہے، تاہم ٹیکس ریونیو میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بلوچستان نے سب سے زیادہ 71 ارب 16 کروڑ روپے اس کے بعد سندھ نے 19 ارب 9 کروڑ روپے کیش سرپلس رپورٹ کیا، دوسری طرف پنجاب نے 28 ارب 55 کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے جبکہ خیبرپختونخوا نے مالیاتی خسارے میں 10 ارب 30 کروڑ روپے کا اضافہ کیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو صوبے (بلوچستان اور سندھ) اپنے ریونیو کا حصہ اپنے رہائشیوں کے معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کر سکے اور اس کے بجائے وفاقی حکومت کے خسارے کو پورا کیا۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ حکومت بجٹ خسارے کو مینج کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ اخراجات میں اضافہ اور ریونیو اکٹھا کرنے کی توقعات کا پورا نہ ہونا ہے، خاص طور پر ٹیکس ریونیو کا، یہ واضح تھا کہ کل محصولات جی ڈی پی کے 2.5 فیصد پر رہے، یہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2.4 فیصد سے معمولی زیادہ ہیں، تاہم اس دوران اخراجات جی ڈی پی کے 3.4 فیصد پر رہے، جو پچھلے سال کے برابر تھے۔

مالی سال 2024 کے ابتدائی تین ماہ میں مجموعی بنیادی خسارہ (آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق ماسوائے سود کی ادائیگی) 416 ارب 81 کروڑ روپے یا جی ڈی پی کے 0.4 فیصد رپورٹ کیا گیا، جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران بنیادی توازن 134 ارب 68 کروڑ روپے یا جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے برابر تھا۔

اپنی کرکٹ بہتر کرنی ہے تو قومی ٹیم باقی میچز نہ جیتے، کامران اکمل کی منطق

بابر اعظم افغانستان سے شکست کے بعد رو پڑے تھے، محمد یوسف کا دعویٰ

جعلی پاسپورٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے مزید اختیارات کے ساتھ نئی ٹاسک فورس تشکیل