نقطہ نظر

29 نومبر: کیا فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا عالمی دن اب کوئی معنی رکھتا ہے؟

اب ایک بار پھر 29 نومبر کی تاریخ آگئی ہے، یہ 29 نومبر غزہ پر اسرائیلی بمباری کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑنے کے ماحول میں آیا ہوا ہے۔ کیا اس ماحول میں یوم یکجہتی فلسطین کوئی معنویت کا حامل موقع بن سکے گا؟

شاعروں کے لطیف پیرایہ شکایت میں ستمبر کو ستم گر کہا جاتا ہے۔ مگر حقائق کی دنیا میں اہلِ فلسطین کے لیے ستمبر ہی نہیں نومبر کا مہینہ بھی ستم گری کا ایک غیر معمولی حوالہ ہے۔ آج دنیا کے کئی بڑے مراکز میں 29 نومبر کو اقوامِ متحدہ کے 27 نومبر 1977ء کے اعلان کے مطابق ’یوم یکجہتی فلسطین‘ منایا جا رہا ہے۔ 29 نومبر کے ناطے ماہ نومبر کو شاید فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ایک تحفے اور عنایت کے طور پر دیکھا جاتا ہوگا مگر حقائق کچھ اور بولتے ہیں۔

دنیا میں امن اور خوشحالی کے لیے قائم کیے گئے اقوام متحدہ نے کرہ ارضی کو بدقسمتی سے امن اور خوشحالی سے محروم رکھنے میں ایک عالمی معاون اور سہولت کار کا کردار زیادہ اچھی طرح ادا کیا ہے۔ اس تناظر میں ماہ نومبر اور اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کے لیے تاریخ کیا رہی؟ ان سطور میں ہم اسی پر بحث کریں گے۔ تاہم یہاں اقوام متحدہ کی سہولت کاری شروع ہونے سے 30 برس قبل کے ماہ نومبر کا ذکر بھی ضروری ہے۔


جدید تاریخ کی سب سے بڑی واردات


یہ ذکر اعلانِ بالفور کا ہے جسے فلسطینیوں کی سرزمین کے خلاف جدید تاریخ کی سب سے بڑی واردات کہا جانا چاہیے۔ اس واردات کے اصل کردار برطانیہ اور صہیونی تحریک دونوں تھے۔ انہیں کے ملاپ اور اتفاق سے ’اعلان بالفور‘ نے جنم لیا تھا۔ یہ ’اعلان بالفور‘ بھی ماہ نومبر میں ہی سامنے آیا تھا۔۔۔ جی ہاں! 106 سال قبل 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کی طرف سے رکھی گئی اس سازشی بنیاد کے 30 سال بعد اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947ء کو اسرائیلی ریاست کی عمارت کھڑی کردی تھی اور اس کے لیے امریکا و برطانیہ سمیت مغرب نے صہیونیوں کو اپنے کندھے پیش کیے۔

اب آپ خود ہی سوچیے کہ 29 نومبر کو اقوام متحدہ کی اپیل یا فیصلے پر فلسطین اور فلسطین کے رہنے والوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی منانے کے آخر کیا معنی ہوں گے اور اس کا اثر کتنا دیر پا ہوگا۔ اقوام متحدہ کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا ’کریڈٹ‘ دیتے ہوئے بے ساختہ وہ مصرع یاد آتا ہے کہ،

وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

اقوام متحدہ کے اعلان کردہ اس یوم یکجہتی فلسطین کی افادیت پر سوال اٹھنے کی بڑی وجہ آج غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش صورتحال بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہی غزہ جسے اسرائیل نے 2006ء سے اپنی ناکہ بندی کی زد میں لے رکھا ہے، جس غزہ پر اسرائیل 2006ء سے آج تک اندھی بمباری کے مواقع پیدا کرنے میں بہت طاق ہوچکا ہے اور ہر بار سیکڑوں ہزاروں فلسطینیوں کی جان لینے کا ذمہ دار رہا ہے لیکن اس بار تو اسرائیل نے بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی حد ہی کر دی ہے۔


مسئلہ فلسطین اور اقوامِ متحدہ


موجودہ جنگ بندی شروع ہونے سے قبل غزہ میں 6 ہزار سے زائد فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں۔ 4 ہزار سے زائد کی تعداد میں فلسطینی عورتیں شہادت پاچکی ہیں جبکہ فلسطینیوں کی شہادتوں کی کل تعداد 15 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ غزہ کی گلیاں اور بازار ہی نہیں در وبام، گھر بار، مسجد، مکتب اور ہسپتال سب کچھ اسرائیلی بمباری سے ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے بدقسمتی سے اسرائیل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔

یو این ورکس اینڈ ریلیف ایجنسی المعروف’انروا’ اور ’عالمی ادارہ صحت‘ پر یہ الزام عائد ہوچکا ہے کہ یہ غزہ سے انخلا کے لیے تقریباً اسی سوچ کو عملاً آگے بڑھا رہے ہیں جو اس وقت اسرائیلی فوج کی ہے۔ ’انروا‘ پر یہ الزام براہ راست فلسطینی مزاحمتی گروپ نے لگایا ہے۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے بارے میں غزہ کی وزارت صحت کے تحفظات بھی سامنے آچکے ہیں کہ اس نے اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس عالمی ادارے کی ساری توجہ اسپتالوں میں زخمیوں اور طبی عملے کو سہولتیں یا تحفظ دینے کے بجائے ان کے انخلا کے لیے ہے۔

گویا ایک جانب اسرائیل کی فوج امریکی حمایت کے ساتھ بمباری کر رہی ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ کا ادارہ زبانی جمع خرچ کے ساتھ قابل قدر مقام پارہا ہے۔ لیکن ان کے زیر قیادت اقوام متحدہ کا دفتر عمل بالکل خالی ہے۔ البتہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’انروا‘، ’عالمی ادارہ صحت‘ اس جنگ کے لیے اپنے اپنے انداز میں ایک سہولت کار کے طور پر بھی موجود ہیں۔

طویل ناکہ بندی سے گزرنے والے غزہ میں خوراک اور پانی تک سے محروم فلسطینیوں کے لیے خوراک کے عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کی حالت بھی ایسی پتلی رہی ہے کہ اس کی خیر سگالی کی سفیر ہیند صابری نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ خیر سگالی کی سفیر کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کا دوسرے ملکوں اور علاقوں میں جنگی یا بحرانی صورت حال میں تو کردار خوب فعال ہوتا تھا مگر غزہ کے حوالے سے اس کی رفتار اور دلچسپی دونوں ہی اچھی نہیں رہی ہیں۔

خیر سگالی کی سفیر اور تونس کی ممتاز اداکارہ ہیند صابری پوری عرب دنیا میں ایک ’سیلبرٹی‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کا استعفیٰ دے کر احتجاج کرنا یقیناً بلاوجہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کے فلسطینیوں کے لیے یوم یکجہتی کے منائے جانے کی گزشتہ 56 برسوں کی روایت کے معنی کچھ ایسے نہیں ہیں جن سے فلسطینیوں کو کوئی عملی فائدہ ہوا ہو نہ ہی مستقبل میں اس حوالے سے کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کا اعلان کردہ 29 نومبر کا یہ یوم یکجہتی فلسطین کس قدر رسمی کارروائی اور صوتی آلودگی کا ذریعہ ہے اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یوم یکجہتی منانے کا آغاز 29 نومبر 1977ء کو ہوا تھا۔ گویا ان 56 برسوں کے دوران اقوام متحدہ کے تحت بنائے جانے والے تمام یوم یکجہتی فلسطین بھی اسی طرح بے معنویت کے درجے میں ہیں جس طرح 57 اسلامی ملک مسلسل ہر اہم ملی معاملے میں خود کو بے بو، بے رنگ اور بے ذائقہ ثابت کررہے ہیں۔ بے بو، بے رنگ اور بے ذائقہ پانی کی پھر بھی بہت افادیت ہے مگر ان ممالک کی افادیت اب تک منصہ شہود پر نہیں آسکی ہے۔ بے عمل، بے فائدہ اور مکمل بے معنی۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک بشمول مسلم ممالک اسی ڈگر پر چلنے کے لیے خود کو پابند سمجھ بیٹھے ہیں۔

ہاں تو بات اقوام متحدہ کے 46 برسوں کی ہو رہی ہوتی ہے۔ 46 سال قبل اس سلسلے میں منظور ہونے والی قرارداد 32/40 کے الفاظ قابل غور ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پی ایل او کے نمائندے کا بیان سننے کے بعد ’ہمیں گہری تشویش ہے کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی حل نہیں نکل سکا اور یہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں تصادم کو بڑھا رہی ہے۔ یہ مسئلہ بین الاقوامی امن وسلامتی کے لیے خطرے کی بنیاد ہے۔‘

’اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن، فلسطینی عوام کے لیے ناقابل تنسیخ حقوق بشمول حق واپسی کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا‘۔

لیکن 1947ء میں 29 نومبر ہی کے دن اسی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے فلسطین کی سرزمین کو تقسیم کرکے ایک اسرائیلی ریاست بنائی تھی مگر اقوام متحدہ نے اس کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داری سے مسلسل پہلو تہی کا نہیں بلکہ مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔

Title of the document

اس قرارداد کی اگلی سطور پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ کی بے عملی اور اپنی ذمہ داری سے عملی انحراف کی مثال سامنے آتی ہے یعنی خود بھی تقریروں اور بیانات اور قراردادوں تک محدود رہنا ہے اور دوسروں کو بھی یعنی اپنے رکن ممالک اور ان کے عوام کو بھی اسی انداز میں تقریروں اور بیانات تک رکھنا ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے فلسطین کے مسئلے پر بیانات دینے کی توقع ہے۔

اقوام متحدہ کو اپنی مرضی کے کولہو میں ایک بیل کی طرح جوت کر رکھنے والے امریکا کا کردار فلسطین کے بارے میں کیا رہا ہے اس کی ایک تازہ مثال تو غزہ پر مسلسل بمباری کے دوران بار بار واشگاف انداز میں سامنے آتا رہا۔ لیکن اس طرح کی اور اس سے بھی زیادہ سنگین تر کچھ مثالیں گزشتہ 76 برسوں کے دوران بار ہا سامنے آئی ہیں۔

لیجیے غور کیجیے۔۔۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلہ فلسطین پر اب تک 195 قراردادیں منظور کی ہیں۔ ان میں سے ماہ نومبر کے دوران جنرل اسمبلی نے 31 قراردادیں منظور کیں جبکہ سلامتی کونسل نے 131 قراردادیں منظور کیں اور ان میں سے 13 قراردادیں اسی یکجہتی والے مہینے نومبر میں منظور کردہ ہیں۔ اس میں امریکا کا کردار یہ ہے کہ اس نے سلامتی کونسل کی 32 سے 34 قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔

29 نومبر کو ہی اقوام متحدہ سے 6 فیصد کی یہودی آبادی کو فلسطین کی سر زمین کا 56 فیصد حصہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر تفویض کیا گیا تھا اور فلسطینیوں سے ان کی الگ ریاست کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ وعدہ پورا کرنا تو درکنار اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کو روکنے یا اسرائیل کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں لانے کی بھی کبھی صورت نہ پیدا ہونے دی گئی۔ جب بھی کبھی کوئی ایسی کوشش کی گئی تو امریکا بہادر نے اسرائیل کے خلاف لائی گئی قراردادوں کو ویٹو کردیا۔


یومِ یکجہتی فلسطین کی معنویت؟


اب ایک بار پھر 29 نومبر کی تاریخ آگئی ہے، یہ 29 نومبر غزہ پر اسرائیلی بمباری کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑنے کے ماحول میں آیا ہوا ہے۔ کیا اس ماحول میں یوم یکجہتی فلسطین کوئی معنویت کا حامل موقع بن سکے گا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں ہونے والی بدترین تباہی اور ہزاروں شہادتوں کے سلسلے میں عالمی سطح پر بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص فلسطینیوں کے لیے اٹھنے والی آوازوں اور اظہار یکجہتی کا طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔

یہاں اسی مسلم دنیا کی بات کرنا مقصود ہے جس کے پاس توانائی کے وسائل کی صورت میں دنیا کی کل دولت کا 70 فیصد موجود ہے۔ دنیا کی 60 فیصد معدنیات انہیں کے علاقوں میں ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد مسلمانوں کی ہی آبادی ہے۔ سمندر، پہاڑ، میدان صحرا سب کچھ میسر ہے مگر میسر نہیں تو۔۔۔ حمیت نام تھا جس کا۔ وہ حمیت عرب وعجم کے گلی کوچوں سے دور جا بسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر سے لےکر اب تک مسلم دنیا کے گلی کوچوں اور شاہراہوں پر فلسطینیوں کے حق میں اتنی بڑی تعداد بھی نہیں نکل سکی (ماسوائے چند شہروں کے) جتنی واشنگٹن، نیویارک اور لندن وغیرہ میں نکلی ہے۔

لندن اور بعض دوسرے شہروں میں وہاں کی حکومتوں اور پولیس نے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اس رائے عامہ کو دبانے کے لیے قانون بنانے اور مظاہرین کے خلاف نسل پرستی کے مقدمے چلانے تک کی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کی اقوام متحدہ جو 29 نومبر کو خود یوم یکجہتی منانے کا داعی ہے، وہ مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے شہریوں کے لیے کھڑا ہوکر، قانون کو ہتھیار بنانے کی مغربی حکومتوں کی کوشش کے خلاف کردار ادا کرتا ہے یا نہیں۔ بلاشبہ قانون کے بنانے اور استعمال کرنے میں نیک نیتی سے عاری طاقت و حکومت امن نہیں فساد لانے کا باعث بنتی ہے۔

بدنیتی و تعصب کی بنیاد پر بنائے جانے والے قوانین جبر اور لاقانونیت لاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے جن ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں قدرے مؤثر یا بڑی ریلیاں دیکھنے کو ملی ہیں ان میں کم از کم فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکلنے والوں کے ساتھ جبر روا نہیں رکھا جاتا۔ اسی لیے ان ملکوں میں فلسطین کے حق میں لوگ بے خوفی سے باہر نکلے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان ملکوں کی حکومتوں اور عوام نے فلسطینیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں؟ کیا چند ملین ڈالرز، چند درجنوں امدادی ٹرکوں اور چند ہزار افراد کے جلسے جلوس فلسطینیوں کو ان کے حق وطن اور حق واپسی سے بہرہ ور کر سکتے ہیں؟ کیا اس سے حمیتِ ملی اور غیرتِ قومی کے تقاضے پورے ہوگئے ہیں؟ کیا اس سے انسانیت کی بہترین اقدار اور امن و سلامتی کے اصولوں کی سرفرازی کی امید پیدا ہوگئی ہے؟

جواب بالکل نفی میں ہے جبکہ منزل ابھی بہت دور ہے ہزاروں فلسطینی بچوں کا غزہ میں ملبے پر بکھرا ہوا لہو ایک دقیع قربانی ہے۔ لیکن محض بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کے خون کی غزہ میں دی گئی قربانی کیا پورے عالم میں بکھرے مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کے لیے کافی ہے؟

ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔


فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کا تقاضا


جس طرح اقوام متحدہ نے 76 برسوں میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا گیا ان کی آزاد ریاست کا وعدہ پورا نہیں کیا اور اقوام متحدہ کے 1977ء سے چلے آرہے یوم یکجہتی فلسطین نے فلسطینیوں کے لیے چند کمروں کے اندر ادا کیے جانے والے روایتی کلمات کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ اسی طرح 57 مسلم ممالک بھی چند شہروں میں چند برادریوں یا زیادہ سے زیادہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ افراد کے جمع کرلینے سے کچھ نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔

اپنی تنومند افواج اور ان کی قیادتوں کی مہارت اور تجربے سے اگر فلسطینیوں کو کچھ ایسا نہیں دیا جاسکتا جو بامعنی ہو اور نتیجہ خیزی کا حوالہ بن سکتا ہو تو کم از کم غزہ کے سب باسیوں کے لیے اپنے وافر مالی وسائل اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تو ضرور کچھ کیا جاسکتا ہے۔ کم از کم علامتی طور پر اپنے سفارتکاروں کی تعداد میں کچھ مستقل یا عبوری کمی کی صورت تو پیدا کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح آج کے دن سے اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں کی مصنوعات اور برانڈز کے بائیکاٹ ہی کی ایک منظم مہم حکومتی و عوامی شمولیت کے ساتھ شروع کی جاسکتی ہے۔ نیز اقوام متحدہ سے تھوڑی جانداری کے ساتھ اور طاقت کے متبادل عالمی مراکز کی حمایت کے ساتھ دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ یکجہتی دکھانی ہے تو اسے اب محض زبانی کلامی رکھنے کے بجائے ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے سلسلے میں عمل کرکے دکھائے۔ اگر یہ سب نہیں کیا گیا تو دشمن کو کہنے کا موقع ملے گا مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں۔

یہ سطور جہاں 29 نومبر 1947ء کی یاد دلاتی ہے جب مسئلہ فلسطین کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی ووٹنگ میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے تھے وہیں 24 نومبر 2023ء کو اسرائیلی فوجی کی غزہ پر وہ بمباری کبھی نہیں بھولیں گی جس نے اس کا انتساب اپنی دو سالہ بیٹی کی سالگرہ کے نام کیا۔


منصور جعفر

لکھاری کی مشرق وسطیٰ کی سیاست اور امن عمل سے متعلق تحریریں قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور ویب گاہوں میں شائع ہوتی ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل یہ ہے: mansoorjafar@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔