دنیا

غزہ پر موقف، مسلمانوں کا صدارتی انتخاب میں بائیڈن کی حمایت ترک کرنے کا اعلان

آئندہ صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت سے محرومی کے بعد بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔

غزہ کے مسئلے پر امریکی صدر جو بائیڈن کے سخت موقف کے پیش نظر امریکا میں موجود مسلمان رہنماؤں نے آئندہ صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کو کوششوں کی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ان رہنماؤں میں سے چھ کا تعلق ایسی ریاستوں سے تھا جس میں مسلمانوں کے بائیڈن کے حق میں ووٹ نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ان مسلمان اور عرب نژاد امریکیوں کی مخالفت بائیڈن کے لیے 2024 کے انتخابات میں الیکٹورل کالج کا حصول مشکل بنا سکتی ہے۔

امریکی اسلامک ریسرچ ریلیشنز منیسوٹا کونسل کے ڈائریکٹر جیلانی حسین سے مچیگن کے شہر ڈیئربورن میں پریس کانفرنس کے دوران جب پوچھا گیا کہ انتخاب میں ان کے پاس بائیڈن کے متبادل کیا ہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف دو نہیں بلکہ کافی آپشنز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ نہیں کریں گے اور مسلمان برادری فیصلہ کرے گی کہ دیگر امیدواروں کا انٹرویو کیسے کرنا ہے لیکن وہ کونسل کے نہیں بلکہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

پریس کانفرنس کرنے والے رہنماؤں کا تعلق مشیگن، منیسوٹا، ایری زونا، فلوریڈا، وسکونسن، جیارجیا، نیواڈا اور پنسل وینیا سے ہے۔

بائیڈن مخالف مہم کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب منیسوٹا کی مسلمان برادری نے بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے جاری تنازع میں 31 اکتوبر تک جنگ بندی کرائیں اور بعد میں یہ مہم مشیگن، ایریزونا، وسکونسن، پنسلوینیا اور فلوریڈا میں بھی بھرپور جوش و خروش سے چلائی جانے لگی۔

امریکی اور اسرائیلی حکام نے مستقل سیز فائر کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کو مسترد کردیا اور ہفتہ کو ایک بیان میں نائب صدر کمالا ہیرس نے امریکی صدر کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

اس تمام صورتحال پر ڈیموکریٹس پہلے ہی وائٹ ہاؤس کو خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل حماس تنازع پر جو بائیڈن کے موقف کے سبب وہ 2024 کے صدارتی انتخاب میں مسلمان اور عرب نژاد امریکیوں کے ووٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔

امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی امید نہیں کہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ ہم سے کچھ بہتر رویہ روا رکھیں گے لیکن اگر ہم بائیڈن کو ووٹ نہیں دیتے ہیں تو اس کا مقصد امریکی پالیسی کو ایک نئی شکل دینا ہے۔

اب دیکھنا ہو گا کہ امریکا میں مسلمان برادری مجموعی طور پر بائیڈن کے خلاف ووٹ کا اعلان کرتی ہے یا نہیں لیکن چند ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹوں کے فرق سے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ 2020 میں ان ریاستوں سے بائیڈن نے بہت کم مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔

حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 2020 میں بائیڈن کو اکثریت مسلمان اور عرب نژاد مسلمانوں کی حمایت حاصل کی تھی لیکن اب ان کی مقبولیت نمایاں کمی کے بعد صرف 17 فیصد رہ گئی ہے۔

یہ اعدادوشمار خاص کر مشیگن جیسی ریاست میں بائیڈن کے لیے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں جہاں وہ 2020 میں صرف 2.8 فیصد ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے اور وہاں 5فیصد ووٹ عرب نژاد مسلمانوں کے ہیں۔

اس کے ساتھ ریاست وسکونسن میں بھی 25 ہزار مسلمان ووٹرز ہیں جہاں سے بائیڈن نے 20ہزار ووٹوں سے کامیابی سمیٹی تھی۔

امریکا میں مسلمان برادری کی نمائندگی کرنے والے ووٹر طارق امین نے کہا کہ ہم ووٹ سے تبدیلی لائیں گے اور اس کی سمت بدل دیں گے۔

امریکی ریاست ایریزونا میں بھی بائیڈن اور ان کے حامیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں 25ہزار مسلمان ووٹرز ہیں اور جو بائیڈن نے 2020 الیکشن میں 10 ہزار 500 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔