پاکستان

نیپرا نے زائد بلنگ کی رپورٹ پر پاور ڈویژن کے اعتراضات مسترد کردیے

پاور ڈویژن کی جانب سے بجلی کے فوری کنکشن کے لیے 15 ہزار سے 30 ہزار روپے وصول کرنے کے اقدام پر بھی نیپرا نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پاور ڈویژن کی جانب سے صارفین کو بھیجے جانے والے بلوں میں بڑے پیمانے پر بےضابطگیوں کی تحقیقاتی رپورٹ پر اٹھائے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ریگولیٹری عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن کی جانب سے بجلی کے فوری کنکشن کے لیے 15 ہزار سے 30 ہزار روپے وصول کرنے کے اقدام پر بھی نیپرا نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

نیپرا کے اراکین نے کہا کہ صارفین کو حکومت اور اس کے اداروں سے صرف ایک چیز کی توقع ہے اور وہ ہے سہولیات اور بہتر سروسز، جس کے لیے وہ پہلے ہی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

یہ مشاہدات گزشتہ روز نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار کی سربراہی میں چار صوبائی اراکین، مطہر رانا، مقصود انور خان، رفیق اے شیخ اور آمنہ احمد پر مشتمل ایک پینل کی طرف سے کی گئی دو الگ الگ عوامی سماعتوں کے دوران سامنے آئے جس کا فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

دونوں سماعتوں کے دوران نیپرا کے ٹیکنیکل ممبر رفیق اے شیخ نے واضح کیا کہ پاور ریگولیٹر ایک انکوائری کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کی مکمل ذمہ داری لیتا ہے جوکہ پیشہ ورانہ صلاحیت اور متعلقہ قابلیت کے حامل ماہرین نے مرتب کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کمیٹی پر مکمل اعتماد ہے اور ہم اس کی رپورٹ کی ذمہ داری لیتے ہیں، تحقیقاتی رپورٹ پر باضابطہ جواب دستیاب ہونے کے بعد ریگولیٹر اپنا ریگولیٹری عمل مکمل کر لے گا۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ 2020 میں اسی طرح کی ایک معاملے میں تعطیلات، ویک اینڈز وغیرہ کے 52 روز کی حد تک زائد بلنگ کے بارے میں رپورٹس سامنے آئی تھیں اور زائد وصول کی گئی رقم صارفین کو واپس داد کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسی فیصلے میں نیپرا نے اعلان کیا تھا کہ بلنگ سائیکل 30 دن سے کم ہو سکتا ہے، تاہم یہ 30 دن سے اوپر نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں بھی یہ مسئلہ 2022 میں سامنے آیا اور سیمپلنگ کے جائزے کے دوران 90 فیصد اوور بلنگ کا انکشاف ہوا، کے-الیکٹرک کے علاوہ کسی بھی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی (ڈسکوز) کے چیف ایگزیکٹوز نے جرح کے دوران اسے چیلنج نہیں کیا۔

لیکن نیپرا کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ تحقیقات سیمپلنگ کے بجائے اصل ڈیٹا پر مبنی ہونی چاہیے، اس لیے ڈسکوز اور پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی (پی آئی ٹی سی) سے ڈیٹا حاصل کیا گیا، جوکہ پاور ڈویژن کا ایک ذیلی ادارہ بھی ہے، اس کی بنیاد پر ڈسکوز مالکان کا نقطہ نظر سننے کے بعد رپورٹ کو حتمی شکل دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری عمل طویل دکھائی دے سکتا ہے لیکن مناسب طریقہ کار اختیار کیا جائے گا اور دوسری طرف سے ردعمل آنے کے بعد اسے مکمل کیا جائے گا۔

پاور ڈویژن اور اس کے زیر انتطام ڈسکوز نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ 30 دن سے زائد کی میٹر ریڈنگ کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے۔

عثمان ڈار مجھ پر ملبہ نہ ڈالیں، انکے گھر پولیس چھاپے سے میرا کوئی تعلق نہیں، خواجہ آصف

یومیہ بیکنگ سوڈے کا پانی پینے کا مشورہ دینے پر عائشہ عمر پر تنقید

آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے کمانڈر یو ایس سینٹرل کمانڈ جنرل مائیکل ایرک سے ملاقات