دنیا

اسرائیل اقوام متحدہ کے نسل کشی کے چارٹر کی خلاف ورزی کررہا ہے، جنوبی افریقہ

کسی بھی ریاست پر کوئی بھی حملہ، چاہے وہ کتنا ہی سنگین نوعیت کا کیوں نہ ہو، کنونشن کی خلاف ورزی کا دفاع کا جواز نہیں ہے، وزیرانصاف

جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے نسل کشی کے چارٹر کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری فوری طور پر رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کی تھی۔

اسرائیل نے جنوبی افریقہ کی اس درخواست کو ظالمانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا اور مقدمے کا بھرپور دفاع کرنے کا اعلان کیا۔

جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونلڈ لمولا نے کہا کہ کسی بھی ریاست پر کوئی بھی حملہ، چاہے وہ کتنا ہی سنگین نوعیت کا کیوں نہ ہو، وہ کنونشن کی خلاف ورزی اور اس کے دفاع کا جواز نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے حوالے سے اسرائیل کا ردعمل اب وہ حد عبور کر چکا ہے اور کنونشن کی خلاف ورزیوں کو جنم دے رہا ہے۔

7 اکتوبر کی حماس کی کارروائی میں ایک ہزار 140 افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری اور زمینی کارروائی کا سلسلہ شروع کیا تھا جو اب تک جاری ہے اور اس میں اب تک 24ہزار 439 لوگ شہید اور ہزاروں زخمی اور نقل مکانی کر چکے ہیں۔

ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں ہونے والی سماعت کے موقع پر جنوبی افریقہ نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کررہا ہے جس پر ہولوکاسٹ کے بعد دستخط کیے گئے تھے۔

جنوبی افریقہ کی نامور وکیل عدیلہ ہاسم نے کہا کہ اسرائیل کی بمباری مہم کا مقصد فلسطینیوں کی زندگیاں تباہ کرنا ہے اور اس نے فلسطینیوں کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نسل کشی کا کبھی بھی پیشگی اعلان نہیں کیا جاتا، لیکن اس عدالت کو گزشتہ 13 ہفتوں میں کی گئی بمباری کی شکل میں شواہد حاصل ہیں جو نسل کشی کے دعوے کو درست ثابت کرتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس طویل عرصے سے فلسطینی کاز کی مضبوط حامی رہی ہے۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور ہیات نے جنوبی افریقہ کو حماس کا قانونی بازو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی افریقہ کا مقدمہ تاریخ میں منافقت کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔

چونکہ ایک فوری معاملہ درپیش ہے تو عالمی عدالت انصاف چند ہفتوں میں فیصلہ کر سکتی ہے، اس کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی تاہم اس کے باوجود فیصلہ ہارنے والے ممالک اکثر عدالت کے فیصلوں پر عمل نہیں کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی حالیہ مثال یوکرین روس جنگ کے حوالے سے فیصلہ ہے جس میں عدالت نے روس کو یوکرین پر اپنا حملہ روکنے کا حکم دیا تھا لیکن روس نے اب تک ایسا نہیں کیا۔

لیکن اسرائیل کے خلاف عدالتی فیصلہ یقینی طور پر ان پر سیاسی دباؤ میں اضافہ کرے گا اور بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل پر پابندیوں کا بہانہ بن سکتا ہے۔