پاکستان

چمن میں صورتحال بدستور کشیدہ، مزید 20 افراد زخمی، 45 گرفتار

جھڑپوں میں 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے، جبکہ گزشتہ چند روز کے دوران زخمیوں کی مجموعی تعداد 60 ہو گئی۔

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں صورتحال غیربدستور کشیدہ رہی، پُرتشدد مظاہروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپیں جمعہ کو مسلسل تیسرے روز بھی جاری رہیں، جس کے نتیجے میں مزید 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مظاہرے اور ریلیوں کے دوران مبینہ طور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور سیکیورٹی حکام پر حملہ کرنے پر 45 افراد کو گرفتار کر لیا۔

سرکاری عمارتوں پر حملہ اور تشدد کے سبب کوئٹہ اور چمن کے درمیان مسافر ٹرین سروس معطل رہی، پاکستان ریلوے کے سینئر حکام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو سیکیورٹی وجوہات کے سبب چمن سے کوئی بھی ٹرین روانہ نہیں ہوئی۔

حکام کا کہنا تھا کہ قبائلی عمائدین کی طرف سے اس یقین دہانی کے برعکس کہ مظاہروں مخصوص علاقے تک محدود رکھیں گے، جہاں وہ اپنے مطالبات کے لیے کئی مہینوں سے دھرنا دے رہے ہیں، لیکن غیر متوقع طور پر مظاہرین لاٹھیوں سے لیس مختلف سڑکوں پر آگئےاور کھلی ہوئی دکانوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔

دھرنے کے شرکا حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جس میں صرف درست پاسپورٹ اور ویزہ رکھنے والوں کو چمن سرحد پار کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس سے پہلے پاکستانی اور افغان شہری اپنے شناختی کارڈ دکھا کر سرحد پار کرتے تھے۔

پرتشدد مظاہروں کے باعث جمعہ کو کاروباری مراکز اور متعدد سرکاری دفاتر بند رہے، بینک بھی کئی روز تک بند رہے، بینک کے ایک حکام نے ڈان کو بتایا کہ نیشنل بینک نے یہاں تک چمن برانچ کے کام کو جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عملے کو قلعہ عبداللہ منتقل کر دیا ہے، مشتعل مظاہرین نے صبح کھلنے والی کچھ دکانوں کو زبردستی بند کروا دیا۔

سیکیورٹی فورسز بشمول لیویز، پولیس اور فرنٹیئر کور نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جو سیکیورٹی اہلکاروں پر لاٹھیوں سے حملہ کیا، چمن میں تعینات سینئر پولیس افسر نے بذریعہ فون بتایا کہ جھڑپوں میں 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے، جبکہ گزشتہ چند روز کے دوران زخمیوں کی مجموعی تعداد 60 ہو گئی۔

محکمہ قانون کے ایک اہلکار نے ڈان کو تصدیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہروں کے دوران پولیس اور لیویز پر حملہ کرنے والے 45 افراد کو گرفتار کیا۔

تاہم، مقامی انتظامیہ کی جانب سے سخت وارننگ کہ کسی کو بھی اس اہم شاہراہ کو بلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جو چمن کے راستے پاکستان کو افغانستان سے ملاتی ہے،کوئٹہ چمن شاہراہ ٹریفک کے لیے کھلی رہی۔

چمن میں ایک سینئر حکام نے ڈان کو بتایا کہ ہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعمیری بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کرنا چاہتے تاکہ پاک افغان سرحد کی طویل بندش کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے والوں کا روزگار بحال ہوسکے۔

چمن بارڈر پر ’ون ڈاکیومنٹ رجیم‘ پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری

چمن: کیمپ اکھاڑنے کے بعد مظاہرین کی ڈی سی آفس میں توڑ پھوڑ، متعدد گرفتار

بلوچستان: دھرنے میں رہنماؤں کی گرفتاری پر چمن میں حالات مزید کشیدہ، 40 افراد زخمی