دنیا

یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ، مظاہرین اسرائیل کی سڑکوں پر نکل آئے

اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے وقت کے مطابق احتجاج صبح 6:29 بجے پر شروع ہوا۔

حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی بازیابی کے حوالے سے معاہدے تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ملک بھر میں مظاہروں کا آغاز ہوگیا جس دوران مظاہرین نے سڑکیں بند کر دیں اور حکومتی وزرا کے گھروں کے باہر دھرنا دے دیا۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے وقت کے مطابق احتجاج صبح 6:29 بجے پر شروع ہوا۔

مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور ملک بھر کے اہم چوراہوں پر رش کے اوقات میں ٹریفک کو روک دیا، پولیس کی جانب سے راستہ صاف کرنے سے قبل مظاہرین نے مرکزی تل ابیب-یروشلم ہائی وے پر کچھ دیر کے لیے ٹائروں کو آگ بھی لگا دی۔

واضح رہے کہ 9 ماہ سے جاری تنازع کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں حالیہ دنوں میں تیز ہوگئی ہیں، حکام نے امید کا اظہار کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فریقین کے درمیان ابھی بھی خلا باقی ہے۔

میگا فونز اور بینرز کے ساتھ مظاہرین کے چھوٹے گروپوں نے متعدد وزرا کے گھروں کے باہر احتجاج کیا۔

نیتن یاہو کے رکن کابینہ رون درمر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے ’مکمل ناکامی‘ کے نعرے بلند کردیے۔

غزہ کی سرحد کے قریب کبوٹز اور ہنر میں مظاہرین نے حماس کے حملے میں ہلاک ہونے والے ہر شخص کے لیے ایک سیاہ غبارہ اور غزہ میں اب بھی قید ہر یرغمالی کے لیے ایک پیلا غبارہ لٹکایا۔

تاہم کچھ اسرائیلی مظاہرین کے مطالبوں سے متفق نہیں ہیں اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ معاہدے سے دستبردار ہو جائے اور تمام مقاصد کی تکمیل تک جنگ جاری رکھیں۔

دوسری جانب غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں شروع کی گئی جوابی کارروائی میں اب تک 38 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔