پاکستان

لاہور ہائیکورٹ: پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست پر اعتراض ختم کرنے کی ہدایت

عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرے، درخواست
|

لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار آفس کو پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست پر اعتراض ختم کر دیا اور رجسٹرار آفس کو درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس فیصل زمان خان نے منیر احمد کی درخواست پر بطور اعتراض کیس سماعت کی، اس موقع پر درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک صدارتی آرڈیننس پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرے۔

لاہور ہائی کورٹ نے درخواست پر متعلقہ بینچ نہ ہونے کا اعتراض ختم کر دیا اور رجسٹرار آفس کو درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا۔

قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔

اطلاعات ونشریات کے وزیر عطا اﷲ تارڑ نے کہا تھا کہ مفاد عامہ اور عدالتی عمل کی شفافیت کے فروغ کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈنینس 2024 نافذ کردیا گیا۔

ٹی وی پر نشر گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کسی مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پراپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔