پاکستان

قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کی اسٹار لنک کے لائسنس کا عمل تیز کرنے کی ہدایت

اسٹار لنک کے علاوہ ایک چینی کمپنی نے بھی لائسنس کے لیے اپلائی کیا ہے، تاہم افسوس کی بات ہے کہ 2022 سے 2025 تک صرف بات چیت ہی چل رہی ہے، چیئرمین کمیٹی

چیئرمین قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی امین الحق نے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کے لائسنس کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کر دی، کمیٹی ارکان نے ’اسلام آباد آئی ٹی پارک‘ منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہونے پر وزارت آئی ٹی حکام پر اظہار برہمی کیا۔

ڈان نیوز کے مطابق امین الحق کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس منعقد ہوا،جس میں مالی سال 25-2024کے لیے وزارت آئی ٹی کا پی ایس ڈی پی فنڈ اور دیگر اہم منصوبے زیر بحث آئے۔

وزارت آئی ٹی نے بتایا کہ رواں مالی سال کے لیے وزارت آئی ٹی کو پی ایس ڈی پی فنڈ کے لیے 24 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ کچھ نئے منصوبے بھی منظور ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں تاحال 2 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے، تاہم آئندہ مالی سال میں پی ایس ڈی پی میں 18 جاری اور چند نئے منصوبے بھی شامل ہوں گے، جبکہ آئندہ مالی سال وزارت آئی ٹی کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 43 ارب روپے سے زائد کے فنڈز درکار ہوں گے۔

اجلاس میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے عوام کی مشکلات کا ذکر بھی ہوا، چیئرمین کمیٹی امین الحق کا کہنا تھا کہ ’جو پی ایس ڈی پی فنڈ آزاد جمّوں کشمیراور گلگت بلتستان میں خرچ ہوتا ہے، اس کے نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔‘

انہوں نے سیاحوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’گلگت بلتستان اور آزاد جمّوں کشمیر جانے والے سیاحوں کے موبائل فونز میں نیٹ ورک ہی نہیں آتا۔‘

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ’آزاد جمّوں کشمیرمیں میری پہلی پریس کانفرنس کے موقع پرعوام کی طرف سے کافی شکایات موصول ہوئی تھیں۔’

اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے حکام نے بتایا کہ ’ہمارے منصوبوں میں موبائل سروس کی توسیع کا منصوبہ شامل ہے، جس کی کُل لاگت 78 کروڑ روپے ہے، جس کے تحت 28 نئے مقامات پر موبائل سروسز فراہم کی جائیں گی۔‘

اجلاس میں آئی ٹی حکام کا کہنا تھا کہ نیشنل سیمی کنڈیکٹر کے تحت ایچ آر ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، جو پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کو دیا گیا ہے،جب کہ سیمی کنڈیکٹرز کی ڈیولپمنٹ کے لیے ’گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ‘ معاہدے بھی کیے جا رہے ہیں۔

کراچی میں آئی ٹی پارک کے قیام سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ’ کراچی آئی ٹی پارک کے لیے اس سال 6 ارب روپے مختص کیے گئے، تاہم ڈیزائن فیزمیں ہونے کی وجہ سے یہ رقم خرچ نہیں کی جاسکی۔

کمیٹی رکن مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مؤثرمنصوبہ بندی نہیں گئی،ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت آتی جا رہی ہے، تاہم ہمارے یہاں منصوبے مکمل ہی نہیں ہوتے، 20 کے بجائے 5 پروجیکٹ کا آغاز کریں مگر اسے وقت پر مکمل کریں۔

جب کہ بیرسٹر گوہرکا کہنا تھا کہ ’ایک طویل عرصے سے اسلام آباد آئی ٹی پارک‘منصوبے کا مکمل نہ ہونا بھی افسوسناک ہے۔’

مصطفیٰ کمال نے وزارت آئی ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا کہ ’وزارت آئی ٹی حکام نے بتایا ہے کہ جون یا جولائی تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد آئی ٹی پارک منصوبے پر کورین کمپنی کام کررہی ہے،جس پر ہفتہ وار میٹنگ بھی ہوتی ہے۔‘

چیئرمین کمیٹی نے اس حوالے سے کہا کہ ’آئندہ اجلاس میں اسلام آباد آئی ٹی پارک کا دورہ کرلیں گے۔‘

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل’ پر جلد کام مکمل کیا جائے اور اسے کمیٹی میں لے کر آئیں تاکہ بل منظور کیا جاسکے۔’

سیکریٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے بتایا کہ وزیر آئی ٹی اس بل پر آن بورڈ ہیں، جلد ہی کام مکمل ہو جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اے آئی پالیسی کا ڈرافٹ بھی تیار کرلیا گیا ہے،جو فروری کے آخر تک کابینہ کو منظوری کے لیے بھیج دیا جائے گا۔

دوسری جانب اجلاس میں ایل ڈی آئی ٹیلی کام کمپنیوں کے ذمے 78 ارب روپے کے واجب الادا ہونے کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔

چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کے کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں سے واجبات کی وصولی کے لیے پی ٹی اے کے پاس تین آپشنز موجود ہیں،پہلا آپشن یہ ہے کہ ایل ڈی آئی یکمشت رقم جمع کروا دے، دوسرا آپشن ان کمپنیوں سے اقساط میں واجبات کی وصولی اور تیسرا آپشن ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس کی معطلی ہے، جبکہ لائسنس منسوخی کی صورت میں 50 فیصد اے ٹی ایم سروس متاثر ہوگی۔

انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ پورا بینکنگ انفرا اسٹرکچر ایل ڈی آئی پر چلتا ہے، پانچ کمپنیاں اقساط میں پیسے دینے کے لیے تیار ہیں اور واجبات کی وصولی اقساط میں بھی ممکن ہے، جب کہ ماضی میں بھی ہم اقساط میں ادائیگی کا آپشن بھی دے چکے ہیں۔

ایل ڈی آئی کمپنیوں کے ذمّے واجب الادا بنیادی رقم 24 ارب اور ان کمپنیوں کے ذمے واجب الادا لیٹ پیمنٹ سرچارج 50 ارب سے زائدہے۔

بیرسٹر گوہر کا اس صورت حال پر کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں ڈالرزمیں کماتی ہیں، ان کے ساتھ نرمی نہ برتی جائے،اقساط میں واجبات کی وصولی آخری آپشن ہونا چاہیے۔

اسٹار لنک کے لائسنس کے معاملہ پر بیرسٹر گوہر نے سوال کیا، جس پر پارلیمانی سیکریٹری برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے بتایا کہ دو سال پہلے جب اسٹار لنک نے اجازت مانگی تھی، تب ہمارے پاس کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں تھی۔

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ’اسٹار لنک کے علاوہ ایک چینی کمپنی نے بھی لائسنس کے لیے اپلائی کیا ہے، تاہم افسوس کی بات ہے کہ 2022 سے 2025 تک صرف بات چیت ہی چل رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ایک ڈائریکٹیو ایشو کرتے ہیں کہ جلد از جلد اسٹار لنک کا لائسنس مکمل کیا جائے۔‘

کمیٹی رکن احمد عتیق نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ آج کل ڈیٹا سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے،اسی لیے مجھے اسٹار لنک پر اعتبار نہیں، کیوں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے شہریوں کا ڈیٹا محفوظ ہوگا یا نہیں۔

انٹرنیٹ کی رفتاراورکنیکٹوٹی پرچیئرمین پی ٹی اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’پی ٹی اے نے ریونیو کی صورت میں گزشتہ 6 برسوں میں 1700 ارب روپے حکومت کو دیئے، تاہم حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے اس شعبے میں ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری نہیں کی۔‘

انہوں نے شکوہ کرتے ہوئےکہا کہ انٹرنیٹ کی تیزرفتار کنیکٹوٹی فائبرکیبلز بچھانے سے آتی ہیں، بھارت سے سیکھ لیں مودی حکومت نے ٹیلی کام سیکٹر میں کنیکٹوٹی پر 13ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔’

مصطفیٰ کمال نے چیئرمین پی ٹی اے سے سوال کیا کہ ’کنیکٹوٹی پر کام کرنے کے لیے کیا پی ٹی اے کے پاس کوئی تجویز یا پلان ہے‘جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ ’فائبرائزیشن پالیسی پروزارت آئی ٹی کام کر رہی ہے۔‘