عورت کا پاکستان
کہاوت مشہور ہے کہ کسی قوم کی حالت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ قوم اپنے کمزور افراد اور اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
پاکستانی معاشرے کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو ایک افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں اور بوڑھوں کی خصوصی نگہداشت کی جاتی ہے اور خواتین کو ذاتی حقوق دیے جاتے ہیں (یا کم از کم اس ضمن میں کام ضرور ہو رہا ہوتا ہے)۔ ہم بدقسمتی یا اپنی نااہلی کے باعث معاشی اور معاشرتی میدان میں نکھٹو ثابت ہوئے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ابھی تک طاقتور کا زور سب پر چلتا ہے۔
شخصی آزادی کا تصور ویسے ہی ہمارے معاشرے میں ناپید ہے، لیکن عورتوں کے حقوق کا تو بہت ہی برا حال ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
ہر سال عالمی طور پر ماہ دسمبر کا پہلا ہفتہ گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد میں مار پیٹ، زبردستی کی شادی، جسمانی اعضاء کاٹنا، خوراک کی عدم فراہمی، ریپ اور بال بمعہ ابرو کاٹ دینا جیسے جرائم شمار کیے جاتے ہیں۔
سنہ 2011ء میں پاکستان کو افغانستان اور کانگو کے بعد خواتین کے لیے دنیا کا بد ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جہیز کے مسئلے پر سب سے زیادہ تشدد اور قتل پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2011ء میں انہیں ساڑھے آٹھ ہزار (8500) سے زائد شکایات گھریلو تشدد سے متعلق موصول ہوئیں۔
ہمارا ملک کاغذی سطح پر تو عورتوں کے حقوق کا داعی نظر آتا ہے، کیونکہ یہاں اسلامی ممالک میں پہلی دفعہ ایک خاتون کو وزیر اعظم کا عہدہ ملا اور اس وقت بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیشتر خواتین بحیثیت ارکان موجود ہیں۔
قول اور فعل میں بہر حال کافی فرق ہوتا ہے اور یہ ملک خواتین کے لیے کسی طور بھی محفوظ نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کی اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ دعوی کرتا ہے کہ اسلامی قانون میں زنا بالجبر (ریپ) نامی کسی چیز کا تصور ہی نہیں، جہاں چار اور پانچ سال کی بچیاں انسان کے نام پر درندوں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں، جہاں ایک تیرہ سالہ بچی کو ریپ کے بعد زندہ قبر میں دفنا دیا جاتا ہے، جہاں خواتین کو گھر سے خریداری کے لیے نکلنے پر چاقوؤں اور چھریوں سے زخمی کیا جاتا ہے، جہاں ایک خاوند اپنی بیوی کو تیزاب پینے پر مجبور کرتا ہے، جہاں کے بڑے شہروں سے نوجوان لڑکیوں کی مسخ شدہ لاشیں روز برآمد ہوتی ہیں، جہاں خواتین کو بارش میں نہانے کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے، جہاں ایک خاتون کو جلانے کے بعد کئی دن کمرے میں قید رکھا جاتا ہے، اور جہاں ’غیرت‘ کے نام پر آئے روز بہنوں اور بیٹیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔
اس ملک کی آزاد عدلیہ کا یہ حال ہے کہ آج تک غیرت کے قتل کے باعث کوئی ایک مجرم بھی پھانسی نہیں چڑھا اور عدالت خود ’غیرت‘ کے نام پر فیصلے کرتی رہی ہے۔ اس ملک میں ریپ کے دو مشہور ترین واقعات مظفر گڑھ میں مختاراں مائی اور ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ پیش آئے۔ دونوں مقدمات میں ملوث ملزم آج کھلے عام پھر رہے ہیں گویا 'سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد'۔
ملکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آغاز سے ہی خواتین کی آزادی اور حقوق کی بات کرنے والی خواتین پر بے حیائی کے الزامات لگائے گئے۔ اس بات سے کتنے لوگ واقف ہیں کہ لیاقت علی خان پر گولی چلانے والا سید اکبر، رعنا لیاقت علی کے خلاف اخبارات میں خطوط بھیجا کرتا تھا؟
اسی طرح ملک کے ابتدائی دنوں میں ہی ملاؤں نے بے پردگی اور بے حیائی کے نام پر شور و غوغا شروع کر دیا تھا۔ خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کے مسئلے پر حکومت اور ملاؤں کے مابین تنازعات عام تھے۔
مرد کو عورت سے برتر سمجھنے اور عورت پر ما لک ہونے کی سوچ اس معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ گھریلو تشدد اسی ذہنیت کی عکاسی کا نام ہے۔
اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے پاس کیے گئے قوانین کبھی اسلامی نظریاتی کونسل کو چبھتے ہیں تو کبھی وفاقی شرعی عدالت کو اور کبھی جماعت اسلامی کی خاتون ارکان اسمبلی اپنی ساتھی خواتین کے حقوق کے خلاف قانون سازی میں مشغول نظر آتی ہیں۔
امید کی کرن تو خیر اس ملک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی لہذا خواتین کے مسائل کم ہونے کے امکانات فی الحال مخدوش ہیں۔ اس ضمن میں ایک قابل قدر کام سندھ اسمبلی نے گھریلو تشدد کے خلاف قانون بنا کر کیا۔ اگر اس قانون پر عمل بھی شروع ہو جائے تو شائد بہار کا بھی کوئی امکان پیدا ہو۔
تبصرے (2) بند ہیں