• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستانی تحفظات

شائع December 11, 2013

گذشتہ بارہ برسوں کے دوران آزادانہ عالمی تجارت کی راہ میں رکاوٹ اور دوحہ مذاکرات میں اٹھائے گئے مسائل سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد، اندونیشیا کے دارالحکومت بالی میں گذشتہ ہفتے طے پانے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) معاہدے کو بمشکل ہی نمائندہ معاہدہ کہا جاسکتا ہے۔

ایسے وقت کہ جب ڈبلیو ٹی او کے زیادہ تر ارکان، بالخصوص امیر ممالک، اپنی مارکیٹ میں ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات کی آزادانہ برآمد کی راہ روک کر، اسے غیر متعلق کرنے کی کوشش کررہے ہیں، عالمی تجارت کو بچانے کی خاطر، جنیوا مصالحت کاری پر استوار یہ معاہدہ دوطرفہ علاقائی بندوبست کرنے کے حق میں نظر آتا ہے۔

لہٰذا، ڈبلیو ٹی او کے پُرجوش سربراہ روبرٹو ازی ویدو وضاحت کرتے ہوئے اسے دوحہ راؤنڈ کی تکمیل کی جانب ایک اہم پیشرفت اور ٹھوس قدم قرار دیتے ہیں۔ سن اُنیّس سو پچانوے میں ڈبلیو ٹی او کے قیام کے بعد سے اب تک، بالی پیکج کے تحت، یہ تنظیم کا سب پہلا عالمی تجارتی معاہدہ ہے۔

تخمینہ ہے کہ معاہدے سے عالمی معاشی سرگرمیوں میں اضافی طور پر مزید ایک کھرب ڈالر کی راہ ہموار ہوگی جبکہ دفتری رکاٹوں کو دور اور کسٹم طریقہ کار کو سہل بنانے سے روزگار کے اکیس ملین نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ معاہدہ، ترقی پذیر اقوام کی مارکیٹ تک رسائی کے لیے، کم ترقی یافتہ ممالک کی برآمدات بہتر کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔

بالی معاہدے کا مطلب ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم کے ایک سو اُنسٹھ ارکان، طویل عرصے سے ترقی پذیر ممالک کو تقسیم رکھنے والے آن فارم سبسڈی قواعد آسان کرنے پر رضامند ہوچکے۔ بطور مثال، ہندوستان طویل عرصے سے مصر تھا کہ داخلی سطح پر حکومت، تحفظِ خوراک پروگرام کے تحت جو فصلیں خریدتی ہے، اُن پر کاشتکاروں کو سبسڈی دی جائے۔

ہندوستان کی طرح چاول پیداکرنے والے بڑے ممالک جیسے تھائی لینڈ، پاکستان اور یوراگوئے کا موقف تھا کہ ہندوستانی کاشتکاروں کو سبسڈی ملنے سے، ان کے اپنے ممالک میں کاشتکاروں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اورپھر دن کے اختتام پر، ہندوستان جو چاہتا تھا، اُس نے وہ حاصل کرلیا لیکن دوسرے مذاکرات پر طاری جمود نہ توڑ سکے۔

معاہدے کی 'امن شق' میں تحفظِ خوراک پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، آن فارم سبسڈی کی حد عبور کرنے والے ممالک کی خلاف ورزی اور ڈبلیو ٹی او کو درپیش قانونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے چارسال کی مدت دینے پر اتفاق کیا گیا ہے، جس کا مقصد اس عمل کے طویل ہونے سے تجارت میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکنا ہے۔

افسوس کہ ایسے وقت میں پاکستان کے پاس کوئی وفاقی وزیرِ تجارت نہیں۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ عالمی معاملات اور مسائل کے حل میں حصہ لینے کی خاطر پاکستان کس حد تک سنجیدہ ہے۔

ڈبلیو ٹی او سیکریٹریٹ میں ایک احتجاجی نوٹ لکھنے کے سوا، پاکستانی حکام نے ہندوستان کا راستہ روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، شاید انہیں ڈبلیو ٹی او کے دیگر ارکان سے اپنی موقف پر زیادہ حمایت کی توقع نہیں تھیی۔

کثیر الجہتی تجارتی مذاکرات پر یہ رویہ، عالمی تجارتی سفارت کاری کے میدان میں ملکی اعتماد کے فقدان، صلاحیتوں اور مہارت کی غیر موجودگی کا پتا دیتا ہے۔

خواہ ان کے نقطہ نظر کو مسترد ہی کیوں نہ کردیا جائے مگر پھر بھی زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ شعبہ تجارت کے حکام پاکستان کے منصوبوں کو اُجاگر کرنے کے لیے بھرپور تیاری کریں اور عالمی فورم پر ان کے تحفظات بھی ضرور سنائی دینے چاہئیں۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024