عام آدمی پارٹی اب تنقید کی زد میں؟
عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے نومنتخب وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی کامیابی کے لیے ٹوئٹر اور فیس بک جیسی سوشل میڈیا ویب سائٹس کا بھرپور استعمال کیا تھا، اور یقیناً ان کی مقبولیت اور بھاری تعداد میں لوگوں کی حمایت کے پس پردہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہی سوشل میڈیا ان کے لئے مصیبت بنتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
سماجی کارکن سے سیاسی لیڈر بننے والے کیجریوال ٹوئٹر پر بہت فعال ہیں۔ بارہ لاکھ سے زیادہ افراد ان کو فالو کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان عمران خان نے بھی اسی طرح کینسر ہسپتال قائم کرنےسے حاصل ہونے والی شہرت کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ عام آدمی پارٹی اپنے تقریبات اور ریلیوں میں حامیوں کو متحرک کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا لیکن پاکستان تحریک انصاف سے کہیں زیادہ بھرپور استعمال کرتی آئی ہے ۔
گزشتہ مہینے عام آدمی پارٹی نے دہلی کے ریاستی انتخابات کے دوران ہر حلقہ کے لیے علیحدہ سے فیس بک کا ایک پیج بنایا تھا، سوشل میڈیا پر اس قدر سرگرم رہنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اروند کیجروال ہندوستان کے اور عمران خان پاکستان کے نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ پیر اور منگل کو وزیر اعلٰی کیجریوال نے دہلی پولیس کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دیا۔ اس دوران ناصرف کی دہلی کے میٹرو اسٹیشنز بند رہے بلکہ شہر کے کئی حصوں کو آمدورفت کے لیے بند کرنا پڑا ۔
اس دھرنے کے بعد عام لوگ کیجریوال کے اس قدام پر بہت سے اہم سوالات کررہے ہیں ۔ فیس بک کے صارفین کا کہنا ہے کہ کیا انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے ، ایسے میں ان کے سامنے یہی اختیار بچا ہے انہیں جو بھی کوئی مسئلہ دکھائی دے رہی ہے ، وہ اسے لے کر احتجاج کرنا شروع کردیں۔
فیس بک پر ان کے حوالہ سے کئی لطیفے بھی شیئر کیے جارہے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ”کیجریوال اس قدر ایماندار ہیں کہ کبھی کسی عورت نے ان سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی ہے کہ کیا میں موٹی نظر رہی ہوں ؟“
تجزیہ نگار اس یقین کا اظہار کررہے ہیں کہ اس سال اپریل اور مئی میں ہندوستان کے انتخابات کے دوران سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرے گا۔ حالانکہ ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑے حصے کی پہنچ سے انٹرنیٹ اب بھی بہت دور ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ تیزی کے ساتھ انٹرنیٹ لوگوں کی دسترس میں آتا جارہا ہے۔ اگر برطانیہ سے موازنہ کیا جائے تو اس کی کل آبادی سے دوگنی تعداد میں ہندوستانی شہری فیس بک سے کے صارف بن چکے ہیں۔
کیجریوال پر کی جانے والی تنقید کو ان کی پارٹی کے حمایتی مخالف جماعتوں کا حربہ قرار دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی عام لوگ جنہیں ان کی دھرنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ اب بہت کچھ سوچ رہا ہے۔
دلتوں کے عظیم رہنما اور بھارت کے عظیم مفکرین میں سے ایک بی آر امبیڈکر نے ساٹھ سال پہلے انارکی کی سیاست کے نقصانات کے حوالے سے خاصی وضاحت کے ساتھ اپنے خیالات بیان کیے تھے۔
امبیڈکر کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو سماجی اور اقتصادی ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انقلاب کے روایتی طریقوں مثلاً سول نافرمانی، عدم تعاون اور ستیہ گرہ کا راستہ ترک کر دینا چاہیٔے۔
انہوں نے ہندوستانیوں پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”جہاں آئینی راستے کھلے ہوں ، وہاں غیر آئینی طریقوں کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔“
جبکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہلی کے وزیر اعلٰی اروند کیجریوال اس کے بالکل برعکس طرزفکر رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مغربی بنگال کے وزیر اعلٰی اجئے مکھرجی کولکتہ کے ایک پارک میں اپنی ہی اتحادی حکومت کے خلاف بہتّر گھنٹے تک بھوک ہڑتال کی تھی۔ یہ ہڑتال قیام امن کے سلسلے میں حکومتی ناکامی کے خلاف تھی ۔
ہندوستان نے اس سے پہلے کسی منتخب حکومت کے وزیر اعلٰی اور وزراء کو سڑکوں پر مظاہروں کی قیادت کرتے نہیں دیکھا ہے۔
دھرنے کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے کہا تھا ”کچھ لوگ کہتے ہیں میں انارکسٹ ہوں اور انارکی پھیلا رہا ہوں۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ میں انارکسٹ ہوں، میں ہندوستان کا سب سے بڑا انارکسٹ ہوں۔“
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیجریوال کا مطالبہ جائز تھا، ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی میں ملوث دہلی کی پولیس ریاست کے منتخب رہنماؤں کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، وہ مرکزی حکومت کو رپورٹ کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو اہم مرکزی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کا بھی طویل سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ دہلی پولیس کو ریاستی حکومت کے سامنے جوابدہ بنایا جائے، لیکن کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ کیجریوال کو یقین تھا کہ سڑک پر مظاہروں سے اس نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت میں رہتے ہوئے ایسے مظاہروں سے کیجریوال اور ان کی پارٹی عوام میں اپنی مقبولیت کھو سکتی ہے۔
کیجریوال کی اس بات پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ ان کے وزیر نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تھی، لیکن انہوں نے اپنے وزیر کو اس سےروکنے کی کوشش نہیں کی۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیجریوال ایک حکومت نہیں چلا سکتے لہٰذا وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ بخوبی کرسکتے ہیں۔ کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی ایک خاص حکمت عملی کے تحت دھرنے پر بیٹھے تھے۔
بعض مبصرین مانتے ہیں کہ کہ کسی وزیر اعلٰی کے احتجاجی دھرنے پر بیٹھنے کی مثال شاید ہی کہیں اور دیکھنے کو ملے، لیکن کیجریوال کے معاملے میں یہ تعجب خیز بات نہیں ہے ، اس لیے کہ جب انہوں نے حکومت بنائی تھی،تب ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ حکومت چلانے کے ساتھ ساتھ خود ہی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کریں گے۔
عام آدمی پارٹی کی قیادت یہ خیال کرتی ہے کہ اقتدار میں رہنے کے بعد بھی انہیں اقتدار سے باہر رہنا ہے، وہ ملک میں رائج سیاسی سسٹم کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں، اس لیے وہ اہم اپوزیشن پارٹی کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔
دراصل عام آدمی پارٹی دہلی میں اپنی حکومت کی فکر نہیں ہے ، کیجریوال کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ مستقبل میں ان کی حکومت برطرف کی جاسکتی ہے یا پھر انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں صورتحال ان کے لیے مفید ہی ثابت ہوگی۔
کچھ مبصرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کی نظر قومی منظر نامے پر ہے، کیونکہ بدعنوانی کے خلاف تحریک پورے ہندوستان میں پھیل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظریں ہندوستان کے عام انتخابات پر ہے، جو مئی کے آخر تک منعقد ہونے والے ہیں۔ مقتدر قوتوں نے دہلی کے ریاستی انتخابات کے دوران کیجریوال کو کمزور سمجھنے کی غلطی کی تھی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ لوگ ایک دوسری غلطی بھی کرنے جا رہے ہیں۔ کانگریس کے لیے یہ صورتحال کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔ کانگریس حکومت نہ تو کیجریوال حکومت سے حمایت کرپا رہی ہے اور نہ ہی وزیر اعلٰی کو گرفتار کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ یہ دونوں کارروائیاں کانگریس کے لیے موت کا سامان ثابت ہو سکتی ہیں۔
بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے حکومت بنانے میں ناکام رہی تھی اور اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی ۔
تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ احتجاجی دھرنے پر بیٹھ کر کیجریوال نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے، لیکن کیجریوال کی سرگرمیوں سے یہ واضح ہے کہ وہی ہو رہا ہے جو کیجریوال چاہتے ہیں، وہ حکومت نہیں چلارہے ہیں بلکہ وہ اگلے عام انتخابات کے لیے اپنی حکمت عملی پر عمل کررہے ہیں۔
ہندوستان کی اٹھارہ ریاستوں میں کیے گئے ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نصف سے زیادہ ہندوستانی ووٹرز کیجریوال کی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کو جانتے ہیں اور تقریباً اٹھارہ فیصد ووٹرز میں عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینے کا رجحان پایا گیا ہے۔
بعض مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اتنے اہم انتخابی فوائد حاصل کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی 2014ء کے دوران ایسی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھر سکتی ہے، جس پر ہندوستان بھر کے لوگوں کی نظریں جمی ہوں گی، لیکن سڑکوں پر ایسے مظاہروں کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت اور انتخابی فوائد گنوا سکتی ہے۔
اس لیے کہ ہندوستان میں کے ووٹروں میں انارکی حمایت پیدا ہونے کی امید بہت کم ہے. لوگ استحکام کو ترجیح دیتے ہیں، یہاں کی سیاست کافی مرکزی ہے۔ اس لیے فوری طور پر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ عام آدمی پارٹی بازی پلٹ دے گی، یا اس جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔