کراچی کے 32 نام
کراچی: پاکستان کا سابق دارالحکومت اور موجودہ تجارتی حب کراچی گزشتہ چند سو برسوں میں کم از کم 32 مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس بات کا انکشاف عثمان دموہی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
مؤرخ اور مصنف عثمان دموہی نے یہ بات اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی تقریبِ اجرا میں کہی ۔ آرٹس کونسل کراچی میں کتاب ' کراچی تارٰیخ کے آئینے میں' کے دوسرے ایڈیشن کی رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں کراچی افریقی غلاموں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ تھا اور ان غلاموں کو مشرقِ وسطیٰ میں فروخت کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل، کتاب کے کئی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے ، کالم نگار اور براڈکاسٹر وسعت اللہ خان نے کہا کہ یہ کتاب جنون کے بنا مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تاریخ کو بدلنے اور مسخ کرنے کا سلسلہ عام ہے اور اس ضمن میں یہ تاریخی کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے۔
وسعت اللہ خان نے مزید کہا کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں تاریخ کو پڑھانے کا عمل بہت ذیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔
انہوں نےکہا کہ جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں ایک ٹائر کی دکان کے مالک کا ذکر کیا جنہوں نے کسی بھی مدد کے بغیر سرائیکی انگلش ڈکشنری مرتب کی ہے۔
کراچی کی مختلف تاریخی عمارتوں پر فیچرز سے شہرت پانے والے سینیئر صحافی اختر بلوچ نےکہا کہ عثمان دموہی کی کتاب ان لوگوں کیلئے حوالے کی بہترین کتاب ہے جو کراچی کی تاریخ پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔
' یہ کتاب کراچی کا اصل ماضی بیان کرتی ہے اور اس کا موازنہ ہم شہرکی موجودہ بگڑی ہوئی صورتحال سے بھی کرسکتے ہیں،' انہوں نے کہا۔ اختر بلوچ نے اس کتاب کو کراچی کا نوحہ قرار دیا۔
ممتاز شاعر ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ جب وہ ' کراچی کا دبستانِ شاعری' کے عنوان سے اپنی پی ایچ ڈی مقالے پر کام کررہے تھے تو اس وقت عثمان دموہی کی کتاب سے انہیں بہت مدد ملی۔
جاوید منظر نے کہا کہ انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے کیلئے 35 مرتبہ اس کتاب کا حوالہ دیا ہے۔
انہوںنے کہا کہ کتاب میں کراچی کی کم از کم پانچ سو سالہ تاریخ کو دلچسپ انداز میں بنایا گیا ہے۔ کتاب میں شہر کی ابتدائی بنیادوں کا ذکر ہے جو آگے بڑھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کراچی کو پکارے جانے والے نام بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
' کراچی تاریخ کے آئینے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملیر کینٹ میں افریقہ سے آئے ہوئے غلاموں کو رکھا جاتا تھا اور اس کے اطراف کے راستے کچھ اس طرح بھول بھلیوں کی طرح بنائے جاتے تھے کہ غلام وہاں سے فرار نہ ہوسکیں۔ ان میں سے کچھ غلام کراچی میں بس گئے اور ان کی اولادیں آج بھی موجود ہیں۔' انہوں نے کہا۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہےکہ غلاموں کی نیلامی کی ایک مارکیٹ آج کے لیاری میں بھی قائم کی گئی تھی۔
جاوید منظر نے کراچی کو بندرگاہوں سے محروم وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے ایک مرکزی دروازہ قرار دیا۔
ڈان ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے عثمان دموہی نے کہا کہ اگرچہ وہ اس کتاب پر ایک عرصےسے کام کررہے تھے لیکن کتاب پر کام شروع کرنے اور پہلا مسودہ مکمل کرنے میں تقریباً دس سال کا عرصہ لگا۔
'یہ کتاب کراچی کی تقریباً مکمل تاریخ کا احاطہ کرتی ہے جس میں شہر کے دلچسپ تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں،' انہوںنے کہا۔
' یہ کتاب بتاتی ہے کہ کراچی کا مستقبل بہت تابناک تھا اور اب ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اس کا مستقبل بھی روشن بنائیں۔' اس تقریب میں ریٹائرڈ جسٹس حاذق الخیری، سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر، پروفیسر سحر انصاری اور دیگر نے شرکت
تبصرے (2) بند ہیں