• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

کیا الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہے؟: سپریم کورٹ

شائع March 4, 2014
عدالت نے پوچھا کہ بالفرض صوبائی حکومت قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو کیا الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہے اور الیکشن کا انعقاد نہ کرائے۔ —. فوٹو سہیل یوسف
عدالت نے پوچھا کہ بالفرض صوبائی حکومت قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو کیا الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہے اور الیکشن کا انعقاد نہ کرائے۔ —. فوٹو سہیل یوسف

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پیر کے روز ایک تجویز کے جواب میں پنجاب حکومت سے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات سے متعلقہ موجودہ قوانین کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس ہے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل ایک عدالتی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک اپیل پر یہ سماعت کی تھی، یہ اپیل صوبے میں حدبندیوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے اکتیس دسمبر 2013ء کے ایک فیصلے کے خلاف کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل حنیف کھٹیانہ سے کہا کہ وہ متعلقہ حکام سے ہدایات حاصل کریں اور اس تجویز پر ان کے مؤقف کے بارے میں منگل کے روز عدالت کو مطلع کریں۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے سیکشن 19 کے مطابق الیکشن کمیشن کو حدبندیوں پر اعتراضات کی سماعت کا حق حاصل ہے، لیکن اس قانون کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خلافِ ضابطہ قرار دے دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ متضاد تھا، اس لیے کہ اس نے صوبائی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ وارڈز کی حدبندیوں کے لیے قانون سازی کرے، لیکن اسی وقت الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ہدایت بھی کی، یہاں تک کہ اگر کوئی قانون بھی نہ بنا ہو۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ بالفرض صوبائی حکومت قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو کیا الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہے اور الیکشن کا انعقاد نہ کرائے۔

ایڈوکیٹ اظہر صدیق، جنہوں نے بلدیاتی انتخابات کو جماعتی بنیادوں پر منعقد کروانے کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کررکھی ہے، انہوں نے اس موقع پر کہا کہ الیکشن کمیشن کا حق اور اس کا دائرۂ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ایکٹ کی خامیوں کو پُر کرسکے۔

اس سے قبل اسی عدالتی بینچ نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو حکم دیا کہ وہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں چودہ سالوں سے مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد نہ کرانے کی وجوہات جمع کرائیں۔

عدالت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے قانون سازی کے نام پر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

اسی عدالتی بینچ نے کنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ کے سابق صدر ایڈوکیٹ راجہ رب نواز کی 2009ء میں دائر کی گئی ایک درخواست کی بھی سماعت کی، جس میں کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی اداروں کی غیرموجودگی کو چیلنج کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو مطلع کیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز ایکٹ 1924ء میں ترامیم کا ایک بل قومی اسمبلی کی منظوری کا منتظر ہے، لیکن انہوں نے یقین دلایا کہ یہ قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں منظور ہوجائے گا۔

سماعت دس مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024