عسکریت پسندی کی ابتدا
تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے مضبوط مطالبات نے عسکریت پسندی کے حوالے سے ایک پارٹی اور اسکی پوزیشن کو مشکل میں ڈال دیا ہے-
عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف، جس نے کہ کارروائی کی مخالفت اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ کے طور پر مذاکرات کو فروغ دینے کیلئے ایک پلیٹ فارم بنایا، اب اپنی پوزیشن سے کم از کم جزوی طور پر، پیچھے ہٹنے کے لئے طریقہ تلاش رہی ہے تاکہ خود کو مکمل طور پر ملک میں موجودہ موڈ کے کے مطابق پیش کر سکے-
مثال کے طور پر، پارٹی کے سینئر نائب صدر، اسد عمر نے حال ہی میں کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑائی میں اس جڑ تک پہنچنا ہو گا جہاں عدم برداشت کے ایسے رویے جنم اور پروان چڑھ رہے ہیں اور ان آماجگاہوں کو ختم کرنا ہو گا"-
تو پاکستان میں دہشت گردانہ تشدد کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا کہنا تھا "ہر گزرتے سال ریاست پاکستان، کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے"- انہوں نے اس دلیل کے ساتھ ان عوامل اور امور کی ایک لسٹ بھی پیش کی کہ جو ان کے بقول ریاست کی کمزوری، دہشت گردوں کو چھوٹ دینے اور ان کا نفرت بھرا رویہ اختیار کرنے کے لئے براہ راست ذمہ دار ہے-
ان کی فہرست خاصی طویل ہے جس میں انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور استعداد، معاشرے میں بڑھتی "ناانصافی اور عدم مساوات"، اور "اشرافیہ کی جانب سے ریاستی اداروں پر تسلط اور غلط استعمال" شامل ہیں-
ریاست کے اس ڈس فکشن کی وجہ سے "اپنے حقوق سے بے بہرہ نوجوان طبقہ، نفرت اور عدم رواداری کے ان پیغامات کا آسان شکار بن رہا ہے"- ان کی دلیل تھی کہ "ملک کے لوگ ناراض ہیں"-
اس سے جو کہانی سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے؛ معاشرے میں ناانصافی اور ناکارہ اور ڈس فنکشنل معیشت، غصہ پیدا کرتے ہیں، اور یہ غصہ دہشت گردی میں اپنی آواز پاتا ہے اور اس آواز کی کشش، حقوق سے بے بہرہ نوجوانوں کو کھینچتی ہے جو ناانصافی پر مبنی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں-
اس تجزیے میں کچھ گڑبڑ ہے- ایک طرح سے یہ تجزیہ کہتا ہے کہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں میرا اور آپ کا غصہ بالکل ویسا ہی ہے جو غصہ طالبان دکھاتے ہیں-
تاہم حقیقت، بدقسمتی سے بہت سادہ ہے- ہمارے ملک میں دہشت گرد گروہ صرف ایک وجہ سے پنپ رہے ہیں، انہیں ہماری سر زمین کے اعلیٰ ترین حکام کا آشیرواد اور تحفظ حاصل رہا ہے-
اس داستان یا کہانی کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں دہشت گردی کی وجوہات، بے روزگاری اور غربت بتائی گئی ہیں اور ایک چوتھائی ضدی تک علاقائی مفادات کیلئے پراکسی جنگجوؤں کے طور پر دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل اور فنڈنگ کے امر کو اس کہانی میں یکسر فراموش کر دیا گیا ہے-
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا معاشرہ اور معیشت ناکارہ اور ڈس فنکشنل ہو چکے ہیں اور یقیناً ان سے تشدد پسند اور سماج مخالف رویوں کو شہ ملتی ہے- تاہم اس مضمون پر اب تک ہونے والی تمام ریسرچ یہی نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اپنے حقوق سے بے بہرہ اور ناراض نوجوان، اسٹریٹ جرائم اور مسلح ڈکیتیوں کی زندگی اپناتے ہیں نہ کہ وہ دنیا کے خلاف ایک مقدس جنگ شروع کر دیں-
دہشت گرد تنظیموں میں نظریاتی جنگجوؤں کی موجودگی کی وجوہات دوسری ہیں- نظریاتی جنگجوؤں کو خود کو برقرار رکھنے اور اپنی جنگ جاری رکھنے کیلئے ہمیشہ کسی ریاست کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے-
عام طور پر انہیں یہ حمایت ملک کے باہر سے حاصل ہوتی ہے، کبھی کوئی پڑوسی ملک یا پھر کوئی دوسری بڑی طاقت، جو کسی بھی مفاد یا وجہ سے جنگجوؤں کے ملک کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہے- لیکن ہمارے معاملے میں انہیں یہ حمایت اور مدد اندرونی ملی کیونکہ ان گروہوں کو پڑوسی ملکوں کے خلاف پراکسی جنگوں کیلئے پروان چڑھایا گیا-
یہ دلیل درحقیقت کافی پرانی ہے کہ اچھے اقتصادی اور معاشرتی اداروں کا قیام اور ان کی اچھی کارکردگی، انسداد دہشت گردی کا بہترین طریقہ ہے-
انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں، ترقیاتی سوچ کے بانیوں میں سے ایک، والٹ روسٹو نے ایک چھوٹا سا مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ترقی از انسداد دہشت گردی- اس مضمون میں ان کی دلیل یہ تھی کہ اقتصادی ترقی سے مزدوروں کی طلب بہت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کیلئے بھرتی کیلئے افراد کی تلاش ممکن نہیں رہتی-
اس کے بعد سے لے کر اب تک یہ دلیل مختلف قسموں اور فورمز میں استعمال کی جاتی رہی ہے- کیری لوگر بل پر ہونے والی بحث کے دوران اس کا استعمال، اس کی تازہ ترین مثال ہے-
یہ دلیل اصل میں امریکہ کو درپیش اس سوال کے حوالے سے تھی جو اسے ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرتے ہوئے درپیش تھا- بڑے پیمانے پر ابھرنے والی ان تحریکوں کو کیسا روکا جائے جو جنگ عظیم کے خاتمے پر یورپ کے نوآبادیات رہنے والے ملکوں میں بڑے پیمانے پر نظر آ رہی تھیں-
اس کے مقابلے میں ہماری آج کی صورتحال مختلف ہے- ہم کسی تحریک کو دبانے کے خواہاں نہیں- بلکہ دیکھا جائے تو ہمیں کسی عوامی تحریک کا بھی سامنا نہیں، کیونکہ طالبان کا وجود کا عوامی ناراضگی سے کوئی تعلق نہیں- ہمیں تو جس نظریاتی پروپیگنڈے کے شکار گروپ کا سامنا ہے اسے تو ہمارے ہماری ہی افواج نے ایک خاص کام کی انجام دہی کیلئے تشکیل اور ٹرین کیا تھا، تا کہ خطّے میں اپنی طاقت برقرار رکھی جا سکے اور اب یہ گروپ اپنے سرپرستوں کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے-
ہمارے معاشرے کی اقتصادی اور سماجی ناکامی، اس عفریت کی پیداوار کا سبب نہیں بلکہ سچائی تو بالکل ہی الٹی ہے- یہ تو ہماری اس پالیسی کی پیداوار ہے جس کے تحت ہم نے انتہا پسند ملیشیاز کو آلہ کار کے طور تشکیل دیا- کسی بھی سماجی یا اقتصادی اصلاحات سے دہشت گردی کے یہ عفریت ہتھیار نہیں ڈالنے والے اور اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ اقتصادی ترقی کی وجہ سے انہیں بھرتی کیلئے افراد کی کوئی کمی ہو گی کیونکہ یہ کوئی عوامی تحریک تو ہے نہیں لہٰذا انہیں بہت بڑی تعداد میں افراد بھرتی کرنے کی بھی ضرورت نہیں-
لہٰذا بہتر ہو گا کہ ہم اقتصادیات کو اس معاملے میں نہ گھسیٹیں- مباحثے کے اس اہم موڑ پر، موضوع بدلنا ٹھیک نہیں ہو گا- دہشت گردی کے اس عفریت سے لڑائی کا آغاز ایک انتہائی سادہ قدم سے ہو گا اور وہ ہے اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کرنا-
ہمیں ایک ہاتھ سے معیشت پر انگلی اٹھانا اور دوسرا ہاتھ، ان عسکریت پسندوں کے گلے میں دوستوں کی طرح ڈالنا چھوڑنا ہو گا جنہوں نے برسوں سے ہماری زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
رائیٹر ایک بزنس جرنلسٹ اور 2013-2014 کے لئے ووڈ رو ولسن سینٹر، واشنگٹن کے پاکستان اسکالر ہیں
khurram.husain@gmail.com
Twitter: @khurramhusain