کراچی مزید گنجان
بحریہ ٹاؤن ایک جانا پہچانا رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ہے- یہ اپنے پلان اور خرچے پر کلفٹن میں ایک بہت بڑا ٹریفک انجینرنگ پروجیکٹ کر رہا ہے- یہ پروجیکٹ، علاقے میں بحریہ آئیکن ٹاور کے چالو ہونے کے بعد گاڑیوں کی بڑی تعداد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھیڑ کی ضروریات کے تحت بنایا جا رہا ہے- ٹاور میں دفتروں کے لئے 59 فلورز ہیں-
اس بحث میں پڑے بغیر کہ آیا رئیل اسٹیٹ ڈویلوپرز کو شہر کی ساخت اور ہئیت کو تبدیل کرنے کا اختیار ہونا چاہئے یا نہیں یا آیا آئیکن ٹاور کو اس کے موجودہ مقام پر تعمیر ہونا چاہئے تھا یا نہیں، یہ بات ماننے کی ہے کہ اضافی گاڑیوں کی وجہ سے متوقع صورتحال سے نبٹنے کیلئے ٹریفک انجینرنگ کی مداخلت درکار ہے- یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنے رئیل اسٹیٹ کی ترقی سے پیدا ہونے والے متوقع مسائل کا نہ صرف احساس کیا بلکہ اسے حل کرنے کی کوشش کی-
اس سب کے بعد، جس علاقے میں یہ پروجیکٹ جاری ہے، وہاں تین انتہائی اہم ثقافتی ورثہ سائٹس بھی واقع ہیں- ایک تو ہے مہادیو مندر- مقامی روایات کے مطابق، اس مندر کا ذکر مہابھارت میں بھی لہٰذا لوگ یہاں ڈھائی ہزار سال سے پوجا پاٹھ کرتے ہیں- اس کے علاوہ صدیوں پرانی ہنگلاج یاترا سے اس کے لنکس نہ صرف زندہ ہیں بلکہ مستحکم ہیں- دوسری سائٹ بارہ سو سال پرانا حضرت عبدللہ شاہ کا مزار ہے جو کہ حضرت امام حسن کی نسل سے تھے- وہ کراچی کے جیسے سرپرست برزگ مانے جاتے ہیں یر ان کا عرس شہر اور اس کے باسیوں کے لئے ایک اہم تہوار ہوتا ہے-
تیسری سائٹ جہانگیر کوٹھاری پریڈ ہے جس کی سیر ہر سال نہ صرف یہاں کے باسی بلکہ یہاں آئے لاکھوں مہمان بھی کرتے ہیں-
تاریخ سے رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ایسی اہم ثقافتی ورثہ سائٹس کے آس پاس تبدیلیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے؛ خلل ڈالنے یا روایت کی طرف سے مقرر کردہ سرگرمیوں میں تبدیلی لانے کے لئے نہیں؛ اور سائٹ کو جسمانی نقصان سے بچانے کے لئے- تاہم جب ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے انہیں عوامی قبولیت حاصل کرنے کے بعد ہی عمل میں لایا جاتا ہے- ایسا کرنے کے لئے ابتدائی اس کے ابتدائی ڈیزائن شہریوں اور متعلقہ گروپوں کو دکھائے جاتے ہیں اور پھر فیڈبیک کے حساب سے اس ڈیزائن میں ضروری تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں-
اگر ایسی کوئی ایکسرسائز کلفٹن پروجیکٹ کیلئے بھی جاتی تو یہ بھی ممکن تھا کہ مسئلہ صرف ٹریفک ری روٹ کر کے اور چند چھوٹے ٹریفک انجینرنگ پروجیکٹس سے حل ہو جاتا- مغرب میں ٹریفک انجینرنگ مسائل کے سلسلے میں حالیہ رجحانات نے ثابت کیا ہے کہ اس طریقے سے بنے انڈرپاسز اور فلائی اور بنائے بھی نبٹا جا سکتا ہے- تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی اور نونب مغربی ایشیا میں اس طریقہ کار کو اب تک لاگو نہیں کیا گیا- ایسا اس لئے کہ ہمارے سیاستدان اور پلانرز سمجھتے ہیں کہ آئکونک تعمیرات سے ترقی کا اظہار ہوتا ہے-
تاہم اوپر بیان کی جانی والی باتوں کے علاوہ ایک اور برا مسئلہ بھی ہے جسے اٹھایا جانا چاہئے- کلفٹن کی پوری کے ڈی اے اسکیم 5 میں بڑے بڑے علاقے مارک کر دئے گئے ہیں جہاں فلور تو ایریا کے حساب سے آبادی کا تناسب 1:2 سے 1:5 اور 1:12 کر دیا گیا ہے- اس کا مطلب یہ ہوا کہ علاقے میں ٹریفک تین گنا بڑھ جائے گا- بحریہ ٹاؤن کا پروجیکٹ تو صرف اس مسئلے کے حل کیلئے ایک مقامی کوشش اور اقدام کے زمرے میں آئے گی جو کہ آئیکن ٹاور میں انسٹھ فلوروں پر دفاتر کی وجہ سے ہو گا- یہ سے وہ مسئلہ تو حل نہیں ہونے والا جو کلفٹن کے کے ڈی اے اسکیم 5 میں فلور ٹو ایریا کا تناسب بڑھنے سے پیدا ہو گا-
وقت اور ضرورت کے لحاظ سے شہر ضرور گنجان ہوتے ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہئے- تاہم اس کی بے لگام بڑھوت سے سنگین نوعیت کے سماجی اور جسمانی مسائل جنم لیتے ہیں اور جن کا نتیجہ بد امنی پر نکلتا ہے- ہم اس کا تجربہ کراچی کے پرانے علاقوں اور منیلا اور بینکاک جیسے شہروں میں دیکھ چکے ہیں- آبادی کی اس بے ہنگم بڑھوت کو ماحول اور انسان دوست رکھنے کے لئے اربن ڈیزائن مشقیں کی جاتی ہیں- ان مشقوں کے مقصد اور طریقہ کار واضح اور مستحکم ہوتے ہیں- ان مشقوں ک نتیجے ان علاقوں کی نشاندہی کی جاتی جہاں آبادی کو گنجان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اسی حساب سے ٹریفک مینجمنٹ اور کمی بیشی کے منصوبے بنائے جاتے ہیں جنھیں شہری حکومت کا ری اسٹرکچرڈ ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ آسانی سے چلا سکے-
مستقبل کے لئے بہتر ہو گا کہ ماحول پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگانے کے علاوہ، خاص طور پر جہاں ثقافتی ورثہ یا/اور موحولیاتی لحاظ سے اہم سائٹس کے اس پاس ایسے بڑے ٹریفک انجینرنگ پروجیکٹس کو عوامی سطح پر ڈسکس کیا جائے- ایسے ڈسکشن کے لئے قوائد، ضوابط اور طریقہ کار وضع ہونے چاہئیں اور ثقافتی ورثہ اور موحولیاتی اعتبار سے حساس سائٹس کی واضح تعریف ہونی چاہئے- آخکار، آج کراچی میں ایک باعمل اور فکرمند معاشرہ موجود ہے جو کہ نہ صرف شہر کو اپنا سمجھتا ہے بلکہ اس سے محبت بھی کرتا ہے- اس سے انہیں اس بات حق ملتا ہے کہ وہ شہر کی ساخت اور ہئیت کا فیصلہ کر سکیں جس سے یہاں کی ثقافت اور سیاست کا دوہرا تعلق ہے-
لکھاری ایک آرکیٹکٹ اور پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے پلاننگ کنسلٹنٹ ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل