'حقوق نہ ملے تو بلوچ طالبعلم ہتھیار اٹھائیں گے'
لاہور : لطیف جوہر کا وزن بہت کم ہوگیا تھا اور اس کی کھال بھی چمک سے محروم ہوگئی تھی، مگر اس کے باوجود اب سنبھلنے میں کامیاب رہا اور اس کے بدن نے خوراک کو دوبارہ قبول کرنا شروع کردیا ہے۔
لطیف جوہر نے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اپنے پارٹی رہنماء زاہد بلوچ کے اغوا کے بعد کراچی پریس کلب کے باہر 40 روز تک بھوک ہڑتال کی۔
اگرچہ اب تک زاہد بلوچ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے، جبکہ ان کی جماعت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او۔اے) نے انہیں ایک ہیرو قرار دیدیا ہے، لطیف جوہر نے اس مقصد کے لیے دھرنا دیا تاہم اسے اپنی کہانی بیان کرنے کے لیے بچا لیا گیا۔
عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کی دعوت پر لطیف جوہر نے پریس، سول سوسائٹی اور اے ڈبلیو پی پارٹی کے اراکین سے ایک گھنٹے تک خطاب کیا۔
متعدد بی ایس او۔اے سٹورنٹ، رہنما اور کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان میں مقیم بلوچ افراد اس بھوک ہڑتال کے دوران لطیف جوہر کے ہمراہ تھے۔
تقریب سے خطاب میں لطیف جوہر کا کہنا تھا کہ اس کی جدوجہد ایک دہشت زدہ کردینے والا تجربہ تھی اور بھوک ہڑتال کے دوران اس کی حالت اتنی خراب ہوگئی کہ اسے ڈرپ لگانا پڑی، مگر تمام تر مشکلات کے باوجود وہ واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا " میں نے یہ سب مختلف عناصر پر دباﺅ بڑھانے کے لیے کیا، میڈیا نے مجھے کوریج دی، مگر بیشتر میڈیا آﺅٹ لیٹس نے میرے مقصد کو زیادہ کوریج دی، اختتام پر مجھے محسوس ہوا کہ میرا پیغام ہر جگہ یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح تک چلا گیا ۔ میری برادری، دانشور اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے تبدریج مجھے اس بات پر قائل کیا کہ میرے مرنے کی بجائے زندہ رہنے کی زیادہ ضرورت ہے"۔
انہوں نے کہا "ایک مردہ شخص کسی کی مدد کیسے کرسکتا ہے؟۔
انہوں نے بتایا کہ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن ان نمایاں گروپس میں سے ایک ہے جس نے انہیں اس بات کا احساس دلانے میں مدد فراہم کی۔
لطیف جوہر کا کہنا تھا " بلوچستان غریب ترین صوبہ ہے مگر ہمارے نوجوانوں کو جس دہشت کا سامنا ہے وہ معاشرے کی جڑوں تک پہنچ گیا ہے، یہاں تک ایسے طالبعلم جو ایک قلم خریدتے ہیں انہیں یہ عناصر پکر لیتے ہیں اور انہیں تفتیشی عمل سے گزارا جاتا ہے، اس مشکل وقت میں سے گزرنے والے ان نوجوانوں کا تشدد کو اپنا لینا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ہماری لائبریریوں اور ادب کو جلا دیا گیا ہے، حالانکہ ہمارے پاس کوئی قابل اعتراض مواد نہیں، ماسوائے یہ کہ یہ لوگ تصور کرلیں کہ کارل میکس اور دیگر کی باتیں ریاست کے خلاف ہیں"۔
لطیف جوہر واضح الفاظ میں اس لاتعلقی اور نااہلی کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیں، اور انکا کہنا ہے کہ ان عناصر کا ریاست سے براہ راست تعلق ہے۔
لطیف جوہر نے مزید کہا " اگر طالبعلم کو اس طرح نشانہ بنایا جائے تو پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے آگے آئیں گے؟ وہ ذہنی طور پر غیرمستحکم اور بتدریج فرسٹریشن کا شکار ہوکر ہتھیار اٹھالیں گے۔ ایک عسکریت پسند کی نظر سے دیکھا جائے تو کسی ایسے شخص کے خلاف ہتھیار اٹھانا غلط بات نہیں جس نے اس کی ماں کو مارا ہو یا بھائی کو ہلاک کیا ہو"۔
درحقیقت یہ لطیف جوہر کی نظر میں بھی جائز ہے،انکا کہنا ہے " اگر وہ ایک باغی نہ بنے تو اس میں دب کر رہ جائیں گے، عدم تحفظ کے باعث بی ایس او۔اے کا آخری اجلاس خفیہ طریقے سے پہاڑیوں پر ہوا"۔
انکا دعویٰ ہے کہ بلوچ رضاکاروں کو مسلسل اغوا، تشدد اور قتل کیا جارہا ہے۔ کئی بار انہیں اتنی بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور لاشوں کو مسخ کردیا جاتا ہے کہ شناخت تک نہیں ہو پاتی۔
ان کے بقول " اس طرح کے تشدد سے صرف تشدد کو ہی بڑھاوا ملتا ہے، اس طرح کی جارحیت کا استعمال کیوں ہوتا ہے خاص طور پر ریاستی عناصر کی جانب سے؟"
انھوں نے کہا کہ خطے میں امن اور استحکام کی خواہش کے برعکس بلوچوں کو غیرضروری طور پر سفاک اور ظالم عسکریت پسندوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔
لطیف جوہر کا کہنا تھا " اگر آپ آزاد خیال اور ترقی پسند افراد کو حکومت کی اجازت نہیں دیں گے، تو بلوچستان کے لوگوں کو ڈر ہے کہ ملک کبھی اس ٹرننگ پوائنٹ کو ڈھونڈ نہیں سکے گا جس سے حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے"۔
لطیف جوہر عسکریت پسندی میں اضافے اور بی ایس او۔اے کو اس کا مخالف قرار دینے سمیت ریاستی عناصر اور دہشتگردوں کے ہاتھوں لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے شدید اختلافات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر مسائل پر بھی بات کی۔
انھوں نے صوبے میں فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم مسائل پر حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔
ان کے بقول" خواتین سمیت ہمارے متعدد افراد نے قربانیاں دی ہیں، اب ہم تشدد کو روکنا چاہتے ہیں، بلوچ تاریخ میں ہماری ایک خاتون رہنماءایسی بھی گزری ہیں جن کے گھر پر روزانہ حملہ ہوتا تھا"۔