‘مذاکراتی عمل ختم ہونے کے باعث آپریشن شروع کیا’
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مذاکراتی عمل مکمل طور پر ختم ہونے کے باعث شروع کیا گیا۔
پیر کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز رشید نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں اور آپریشن کے معیشت پر کوئی اثرات نہیں پڑیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومتی حکمت عملی کے نتیے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، پاک فوج شمالی وزیرستان میں کامیابی سے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے جو علاقے سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
’دہشت گردوں کے زیر کنٹرول آئی ڈی پیز نہ تو اپنی مرضی کا کوئی کاروبار کر سکتے تھے نہ ہی بچوں کو سکول بھیج سکتے اور نہ ہی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا سکتے تھے‘۔
وزیر اطلاعات و نشریات نے تسلیم کیا کہ حقیقتاً شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو کیمپوں میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان کے پر امن گھر کا کوئی اور متبادل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس بھیجنے کے لئے بحالی کا عمل شروع ہو گا اور حکومت اور پاک فوج آئی ڈی پیز کو خوراک، شیلٹر، صحت کی سہولیات اور پینے کا صاف جیسی بنیادی ضروریات فراہم کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے اور ہم میڈیا پر کسی بھی پابندی کے خلاف ہے اور کسی بھی چینل کی ٹرانسمیشن نہیں روکی جائے گی۔
پرویز رشید کہنا تھا کہ ایک مضبوط اور خود مختار میڈیا جمہوریت کے استحکام میں مدد دیتا ہے اور میڈیا پر زور دیا کہ وہ کسی ثبوت کے بغیر کسی پر الزام تراشی سے گریز کرے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت نے مختلف شعبوں میں کئی میگا پراجیکٹس شروع کیے اور غربت کے خاتمے کے لیے وزیراعظم یوتھ سکیم شروع کی گئی۔
دوسری جانب یر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں شرکت کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ تبدیلی سٹریٹ پالیٹکس سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور ہر چیز کے لئے آئینی طریقہ کار ہے لہٰذا عمران خان پارلیمنٹ آئیں اور پارلیمنٹ کی اصلاحاتی کمیٹی سے رجوع کریں۔