• KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am

پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر

شائع August 15, 2014
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

کیا آپ نے پی ٹی آئی کا مسلم لیگ ن کی حکومت کی پہلے سال کی کارکردگی پر وائٹ پیپر کا مطالعہ کیا ہے؟ یہ فرانس کے انقلابی دور کے ایک مصنف نکولس چیمفورٹ کے ایک قول سے شروع ہوتا ہے، کہ لوگ اس لیے غلام رہتے ہیں، کیونکہ وہ نا کہنا نہیں جانتے۔ نکولس چیمفورٹ کو غلطی سے 19 ویں صدی کا رائیٹر بتایا گیا ہے، حالانکہ وہ 1794 میں وفات پا چکے تھے، اس طرح وہ 18 ویں صدی کے رائیٹر تھے۔ لیکن چلیں معمولی باتوں پر توجہ دیئے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

چیمفورٹ کے کریڈٹ پر اس قول کے علاوہ اور بھی بہت اقوال ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ لکھا تھا، کہ اگر کوئی بات، کوئی آئیڈیا، کوئی تصوّر اگر عوام کی اکثریت کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور ایک احمقانہ بات ہو گی"۔

پاکستان میں یہ تصوّر بہت عام ہے، کہ کرپشن نے اس ملک کو ترقی سے روک رکھا ہے۔ پی ٹی آئی انتہائی سادہ انداز میں کہتی ہے کہ کرپشن کے اس 70 سالہ تسلسل کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی جدو جہد کی ضرورت ہے۔

اور یہ کرپشن کیا ہے؟ اس بارے میں وائٹ پیپر کی ابتدا میٹرو بس پروجیکٹ سے ہوتی ہے، جس پر پی ٹی آئی کے مطابق فی کلومیٹر ایک ارب روپے کی لاگت آئی ہے۔

اس کے بعد وائٹ پیپر کے مصنفین ہماری توجہ شہر کے زیر زمین پانی کی فراہمی کے نظام کی طرف دلاتے ہیں۔ وائٹ پیپر ایک پریس رپورٹ کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فراہمی آب کا یہ نظام مرمّت کی شدید کمی کا شکار ہے، اور سیوریج کا پانی تازہ پانی سے مل کر اسے آلودہ کر رہا ہے، جبکہ پانی میں آرسینک بھی موجود ہے۔

وائٹ پیپر کے مطابق سڑک کے اوپر ایک شاندار پروجیکٹ، اور سڑک کے نیچے ایک بوسیدہ نظام کے تضاد سے ہمیں مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے۔ سامنے نظر آنے والے میٹرو بس جیسے مہنگے پروجیکٹس پر کام کیا جاتا ہے، زیر زمین رہنے والے اصل پروجیکٹ کو سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہاں سے وائٹ پیپر مسلم لیگ ن حکومت پر تنقید شروع کرتا ہے، جس کے مطابق شریف برادران چمک دھمک والے پروجیکٹس کا افتتاح کرتے ہیں، اور پھر ان کی قیمت عوام سے وصول کرتے ہیں، جو آرسینک اور سیوریج ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

یہ اچھی بات ہے کہ ہماری پاس ایک ایسی جماعت موجود ہے جو اس طرح کی ناکامیوں کو سامنے لا رہی ہے۔ گورننس میں موجود خامیاں بلا شبہ سنگین ہیں،

بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی ان خامیوں کو سامنے لاتے ہوئے ان کو درست کرنے کے طریقے بھی تجویز کرتی۔

وائٹ پیپر جی ڈی پی سے لے کر قرضوں، اور یوتھ لون سکیم پر روشنی ڈالتا ہے۔ لیکن ان تمام موضوعات میں پی ٹی آئی کے پاس ثبوت کے طور پر صرف اکا دکّا اخباری رپورٹس ہی ہیں۔ پیپر حکومت کو زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کے لیے الزام دیتا ہے، پر یہ نہیں بتاتا کہ اس کے بجائے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔

پیپر حکومت کو 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ یکمشت ادا کر دینے پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے، پر یہ نہیں بتاتا، کہ توانائی کی پیداوار کو چلائے رکھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ تھا یا نہیں۔

اس کے علاوہ الزامات یہ ہیں، کہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں ایک سال کے اندر اندر 78 فیصد کا اضافہ کیا ہے، پر پی ٹی آئ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کس طرح لائے گی، اگر بجلی کی پیداواری لاگت اور صارفین سے وصول کی جانے والی قیمت کے درمیان موجود فرق کم نہیں کیا جائے گا؟

کچھ جگہوں پر پی ایم ایل ن کے خلاف اس کی شکایات جائز ہیں، جیسے کہ لائن لاسز کم کرنے میں حکومت کی ناکامی، یا انتہائی عجلت میں نندی پور پاور پروجیکٹ پر کام کرنا۔ لیکن دوسری جگہوں پر اس کی شکایات وہ ہیں، جو نظام میں موجود مسائل کا نتیجہ ہیں، اور جن کو ایک سال کے اندر حل کرنا ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافہ وغیرہ، پر پھر بھی پی ٹی آئی انھیں حکومتی کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔

حکومتی اداروں میں تقرریوں میں تاخیر پر اس کی شکایات جائز ہیں، پر پاکستان کرکٹ بورڈ میں نجم سیٹھی کی تقرری، اور نادرا چیئرمین کی برطرفی کو بھی ان شکایات کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔

اس طرح یہ شکایات کا ایک ایسا پلندہ ہے، جس میں کچھ جائز، کچھ تصوّراتی، اور کچھ دور کی کوڑیوں پر مبنی ہیں، جس سے ہم ایک اور نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

وائٹ پیپر کے مطابق موجودہ حکومت نے عوام کو جینے کی جدو جہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اور انہیں خواب دیکھنے کے انسانی خصوصیت سے محروم کر دیا ہے۔

ان تمام "ناکامیوں" سے پردہ اٹھانے کے بعد وائٹ پیپر وعدہ کرتا ہے، کہ مظاہرے تب تک جاری رہیں گے، جب تک عوام کو انصاف نہیں مل جاتا، اور پھر تحریر، تقسیم، اور تیاننمین چوک وغیرہ پر ہونے والے مظاہروں کی مثال دیتا ہے۔ اس کے بعد وائٹ پیپر صرف ادبی نثر کا ایک نمونہ ہے، اور کہتا ہے کہ صرف سچ ہی قوم کو نجات دلا سکتا ہے، اور حکومت کے پہلے سال کو ایک تباہ کن سال قرار دیتا ہے"۔

چیمفورٹ کو سب سے زیادہ چڑ اسی نمائشی مبالغے سے تھی۔ اگرچہ کہ وہ حکومتی ایوانوں میں تھے، لیکن پھر انہوں نے وہاں سے علیحدگی اختیار کر کے انقلابی دور میں جیکوبنز کا ساتھ دیا، اور ان کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت میں کام کیا۔ لیکن کچھ ہی وقت کے بعد انہوں نے اپنے تیز دھار خیالات کا رخ اپنے نئے انقلابی بھائیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان انقلابیوں کے منشور کا انہوں نے خلاصہ اس طرح کیا کہ "میرا ساتھ دو، ورنہ قتل ہونے کو تیار ہوجاؤ"۔ یہ آج جی ٹی روڈ پر موجود اس مصنوعی انقلابی جذبے کے لیے کتنی ضرب المثل بات ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

ali Aug 15, 2014 09:49pm
PTI and Imran khan are immeture
Faisal Mahmood Khokhar Aug 18, 2014 02:36pm
Dear sweet heart, PTI, PAT these are not political parties may be some people from these parties has the knowledge of politics and intellegent. these two parties are hijacked by imran and tahir ul kaderi. when you finish the leadership of these two party hijacker, the parties will take the positive decisions.

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025