• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

کونسی گاڑی، کتنے خرچے؟

شائع September 27, 2014
کیا ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اگر ہم کرولا، سٹی یا سوئفٹ میں سفر کریں، تو فی کلومیٹر کتنا خرچ آئے گا؟
کیا ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اگر ہم کرولا، سٹی یا سوئفٹ میں سفر کریں، تو فی کلومیٹر کتنا خرچ آئے گا؟

چلیں کچھ نئی بات کرتے ہیں۔ کیا آپ گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ تو آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے ایک آسان طریقہ حاضر ہے۔

اس فیصلے میں سب سے زیادہ اہمیت قیمت کی ہے۔ اچھا اور قیمتیں بھی دو طرح کی ہیں۔ ایک تو گاڑی خریدنے کی قیمت اور دوسری گاڑی رکھنے کی قیمت۔

گاڑی کے مالک تو بن گئے، لیکن اسے چلانے کے لیے ہونے والے خرچے کچھ اس طرح ہیں۔ ٹھیک حالت میں رکھنے کے لیے معمول کی مینٹیننس، تیل اور فلٹر کو بدلنے کا خرچ۔ فرض کیجیے، کہ آپ اپنی گاڑی سی این جی پر نہیں چلانا چاہتے، تب آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ فی لیٹر پیٹرول پر یہ کتنے میل چل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انشورنس کے خرچے وغیرہ۔

فرض کیجیے کہ آپ ہر ہفتہ اوسطاً 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں، اور اگرآپ کو گاڑی کا مالک بننے کا شوق ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ روزانہ اوسطاً کتنا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک ایسی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں جو ایک لیٹر میں دس کلو میٹر چلتی ہے تو ایک ہفتہ میں پٹرول پر 3180 روپیہ خرچ ہوں گے۔ اس کے علاوہ انشورنس کی رقم کو بھی ذہن میں رکھیں، جو ایک مقامی سطح پر اسمبل کی ہوئی درمیانے سائز کی گاڑی کے لیے تیس ہزار روپیہ سالانہ تک ہوسکتی ہے۔

اگر آپ ہر ہفتے 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں، تو ہر تیرہ ہفتے بعد گاڑی کی دیکھ بھال پر آپ کو 2500 روپیہ صرف کرنا ہوں گے، جس میں تیل بدلنا، آئل فلٹر اور دھلائی شامل ہے۔

اس طرح اگر آپ سال بھر کے اخراجات کا تخمینہ لگانا چاہیں تو سالانہ 219000 روپے کے اخراجات ہوں گے۔ آپ ایک سال میں تقریباً 17000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں گے اور اس گاڑی پر آپ کا فی کلومیٹرخرچ 13 روپے ہوگا۔

میں نے ملک میں اسمبل کی جانے والی مختلف ماڈل اور سائز کی گاڑیوں کے بارے میں یہ اعداد و شمار جمع کیے، ان گاڑیوں کے نام میں یہاں نہیں لوں گا، اور ان گاڑیوں میں 6 روپے فی کلومیٹرسے لیکر اٹھارہ روپے فی کلومیٹر تک شامل ہیں۔ ان خرچوں میں گاڑی کی قیمت خرید شامل کرنا کسی قدر مشکل ہے، کیونکہ بعض گاڑیوں کی قدر مارکیٹ میں ان کی ری سیل ویلیو زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہے۔

اس لیے بعض اوقات یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ گاڑی چلانے میں حقیقتاً اس کی ابتدائی قیمت کا کتنا حصہ استعمال ہورہا ہے۔

اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کتنی مدت بعد مثلاً، پانچ سال بعد، گاڑی کی اصل قیمت میں کتنی کمی ہوگی۔ اور اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس دوران زر مبادلہ کی شرح میں کیا کمی بیشی ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں کمپنیوں کی ویب سائٹس پرمختلف ماڈل کی کاروں کی قیمت دیکھنی ہوگی اور پھراس اخبار کے کلاسیفائڈ کالم میں جاکر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس ماڈل کی گاڑی پانچ سال استعمال کے بعد کس قیمت پر فروخت ہورہی ہے۔

لیکن اتنا وقت کس کے پاس ہے؟ ہاں بزنس اسکول کے طالب علم یہ کرسکتے ہیں۔ انھیں یہ اسائنمنٹ دیا جاسکتا ہے: مثلاً تین مختلف سی سی کی گاڑیوں، 1000 سی سی، 1300 سی سی اور 1800 سی سی ماڈل کی گاڑیوں پر فی کلومیٹر خرچے کیا ہوں گے۔ اس بات کے پیش نظر، کہ پاکستان میں ہر مہینے 16000 گاڑیاں فروخت ہوتی ہیں، ایسے لوگ کافی تعداد میں موجود ہیں جو اس قسم کی معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

مقصد یہ ہے کہ فاصلہ کو بھی ایسی چیز سمجھنا چاہیے جو پیٹرول یا کھانے پینے کی کسی اور چیزکی طرح استعمال ہورہی ہے۔ اس چیز کی قیمت کیا ہوگی اس کا انحصار اس کے استعمال کے طریقے پر ہے۔ مثلاً اگر آپ کراچی میں روزانہ کسی بس پر 50 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں تو آپ کا خرچ ایک روپیہ فی کلومیٹر سے بھی کم ہوگا کیونکہ زیادہ تر بسیں ایک جانب کے سفر کے لیے بیس روپے چارج کرتی ہیں۔

لیکن یہ قیمت صرف بیس روپے نہیں ہوگی، کیونکہ بسیں آپ کو آپ کے گھر کے دروازے پر ہر وقت نہیں مل سکتی۔ اگر آپ موٹر سائیکل پر اتنا ہی سفر کرنا چاہیں تو شاید آپ کو فی کلومیٹر چند روپیہ صرف کرنے پڑیں۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے موٹرسائیکلوں کے لیے حساب نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر آپ یہی فاصلہ گاڑی پر طے کرنا چاہیں تو آپ کو فی کلومیٹر دس روپیہ یا اس سے زیادہ خرچ کرنے پڑیں گے۔

لوگ گاڑی خریدتے وقت ایسا کچھ نہیں کرتے۔ ان فیصلوں میں انا بھی شامل ہوتی ہے۔ بے تحاشہ خرچوں کو محض اس لیے بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے پاس موجود گاڑی میں کوئی خاص فیچر یا خصوصیت نا ہو۔ مثلاً 1300 سی سی کی نئی گاڑیوں میں آج کل نیویگیشن پینل لگائے جارہے ہیں جس سے قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، جبکہ یہی کام ایک سیدھے سادے اسمارٹ فون سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ ان میں سے کتنے لوگ اس سہولت سے فائدہ بھی اٹھاتے ہوں گے۔

اگر صارفین سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں، یہ سوچیں کہ وہ قیمت کیا دے رہے ہیں اور اس کا فائدہ کیا ہے تو پھر چیزیں بنانے والوں کے لیے بھی آسانی ہو گی اور شاید بیکار مصارف میں بھی کافی کمی ہوجائے گی۔ بہت سارے لوگ چاہیں گے، کہ انھیں تفصیل سے معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی کیا قیمت دے رہے ہیں۔

لیکن اس قسم کے اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ اکثر اوقات لوگ فیصلہ کرتے وقت بھیڑ چال چلتے ہیں، اپنے آس پاس دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کررہے ہیں، ان سے رائے لیتے ہیں کہ فلاں ماڈل کے ساتھ ان کا تجربہ کیسا رہا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ری سیل ویلیو کیا ہے، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ کیک کھائیں بھی لیکن وہ ختم بھی نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی گاڑی کئی کئی کلومیٹر چلتی بھی رہے، لیکن گاڑی کی قیمت جوں کی توں برقرار رہے۔

تو میں بزنس اسکول کے اساتذہ کو دعوت دیتا ہوں۔ کیا ان میں سے کوئی نوجوان ذہنوں کو اس کام پر لگا سکتا ہے کہ وہ تین مختلف طرح کی گاڑیوں کے فی کلومیٹر خرچوں کا تخمینہ لگائیں؟ کیا ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اگر ہم کرولا، سٹی یا سوئفٹ میں سفر کریں، تو فی کلومیٹر کتنا خرچ آئے گا؟ یہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا کام ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ سیدہ صالحہ


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025