• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

سیاست کی قیمت

شائع November 9, 2014
عمران خان کی موجودہ سیاست اور 1989 کے بعد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست میں کچھ تبدیلیوں کے علاوہ کافی مماثلت ہے۔
عمران خان کی موجودہ سیاست اور 1989 کے بعد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست میں کچھ تبدیلیوں کے علاوہ کافی مماثلت ہے۔

اب جبکہ دھرنے ختم ہوچکے ہیں، تو یہ بات ضرور پوچھنی چاہیے کہ ان کی وجہ سے حاصل کیا ہوا ہے۔ مجھے تو دو بڑے اثرات نظر آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بدتہذیب تقاریر کا فن پروان چڑھا ہے جس کا سارا زور صرف ذاتی مفادات پر ہے بجائے درستگی کی جانب اقدام کے۔

اس کے علاوہ اسٹریٹیجک فیصلوں مثلاً سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف ریویو میں تاخیر ہوئی ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی بات خوش آئند نہیں ہے۔ جب تک کہ سپریم کورٹ میدان میں کوئی نئی گیند نہ پھینکے، تب تک دھرنے خود سے اب مزید قوت و توانائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

یہ بات شروع ہی سے واضح تھی کہ اگر دھرنوں کا مقصد حکومت کو گرانا ہے، یا وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا ہے، تو انہیں ریلیوں اور تقریروں سے آگے بڑھ کر سخت ہڑتالیں کرانی ہوں گی جو ملک کے بڑے معاشی مراکز میں اقتصادی سرگرمیوں کو ہفتوں کے لیے روک دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صرف اور صرف شور شرابہ ہوا جبکہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ متعین نہیں ہوسکا۔

ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ اب متحرک تو ہوچکا ہے لیکن اس کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ اب ہمارے پاس پارلیمنٹ ہے لیکن اپوزیشن نہیں، اور ایک ایسی حکومت ہے جو اپنے قیام کو 18 مہینے ہوجانے کے باوجود ابھی اپنے استحکام کی جانب قدم بڑھا ہی رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو دھرنے صرف ایک ایسا نقصان تھا جسے تحریک کا خوشنما نام دے کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

تقریباً 25 سال ہوچکے ہیں اور پاکستان ایک سیاسی بحران سے دوسرے کے درمیان جھول رہا ہے۔ اس سب کے دوران حکومتی معاملات چلانے جیسے اہم کام تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے پاس ایک ایسا معاشی سسٹم ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہے، اور حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ ریوینیو پیدا کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اصلاحات لانے یا کارکردگی بڑھانے کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔

گلوبلائزڈ دنیا میں ہمارے داخلے کو تقریباً 25 سال ہوچکے ہیں اور اب تک ہماری بنیادی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل اور غیرہنرمند افرادی قوت ہے۔ امپورٹ کیے گئے تیل پر ہمارے تیزی سے بڑھتے ہوئے انحصار، قابلیت میں کمی، ایکسپورٹس کی ایک ہی سطح پر رکی ہوئی شرح، ان تمام خرابیوں کی جڑ دوسروں کی حکومت کو گرا دینے کی انتھک کوششیں ہیں۔

ہماری اس موجودہ غیر فعالیت کے پیچھے موجود سیاسی معیشت ایک ڈراؤنی کہانی ہے، اور کوئی بھی یہ کہانی سنانے میں سچائی سے کام نہیں لیتا۔ لیکن ایک پارٹی ہے جس نے اس سب کے دوران مسلسل حکومت میں رہنے کا مزہ لیا ہے۔ وہی پارٹی جس نے ہوشیاری کے ساتھ سیاسی خلا کو ایک دوسرے سے متنازعہ چہروں سے بھر دیا ہے، اور اب جب کہ وہ ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں، تو اب یہ پارٹی کھیل کا مزہ لے رہی ہے۔ یہ ملٹری حکومت کے تحائف ہیں جس نے کسی بھی جمہوری حکومت کے دوران طاقت کو سویلینز تک منتقلی کے لیے خود کو کبھی بھی قائل نہیں کیا۔ جونیجو سے اب تک مسلسل ایک ایسے فارمولے کی تلاش ہے جس کی مدد سے طاقت کے لیورز پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس ملک میں ملٹری کا اقتدار کبھی ختم ہی نہیں ہوا۔ جنرل ضیا کی موت سے بھی نہیں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ گرہن صرف تب لگ سکا جب مشرف کو بغیر خون خرابے کے سسٹم سے باہر نکال دیا گیا۔ لیکن یہ ایک لمبا مرحلہ ہونا تھا۔

وہ تمام ممالک جہاں حکومت ملٹری کے ہاتھوں سے جمہوری سیٹ اپ میں گئی، وہاں ڈکٹیٹرشپ کی باقیات ریاست اور اس کے وسائل میں اپنا اثر و اختیار بنائے رکھنے کے لیے کھیل کھیلتی رہی ہیں۔ پاکستان میں اس کھیل کی بنیاد ملک کے خزانے اور زرِمبادلہ کے وسائل تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش ہے، اور یہ ایک ایسی رعایت ہے جس کی ملٹری اپنے دورِ حکومت کے دوران عادی ہوچکی ہے۔ اب جبکہ انتظامی قوت ہاتھوں سے نکل رہی تھی، تو مالیات و خزانے پر کنٹرول کی یہی وہ خواہش تھی جس نے پوری دہائی کی ہماری سیاست اور ہماری اقتصادی اصلاحات کو شکل دی۔

ضیا دور کے بعد تبدیلی کے دور میں انتظامی قوت پر کنٹرول غلام اسحاق خان اور ان کے اس نیٹ ورک کے ذریعے برقرار رکھا گیا، جس میں سول سروس کے بڑے اور مشہور نام شامل تھے۔ گورنر اسٹیٹ بینک، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، سیکریٹری فنانس، وزیر اعظم کے مشیرِ خزانہ، چیئرمین واپڈا، اور دیگر۔ کچھ لوگوں کا نیٹ ورک ان پوزیشنز پر تعینات ہوتا رہا، اور ان کے رویوں کی قریب سے جانچ کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اور ان کے اقدامات تقریباً مکمل طور پر غلام اسحاق خان کے زیرِاثر تھے۔

سیاسی جماعتوں کو اس نیٹ ورک کا کنٹرول توڑنے، اور بیوروکریسی میں اپنے وفادار پیدا کرنے میں بہت وقت لگا۔ اس مرحلے میں ایک اہم مقام نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی 1993 کی لڑائی تھی۔ اپنے لیڈر کے چلے جانے کے بعد باقی کا نیٹ ورک بھی بکھر گیا۔

تبدیلی کے دوسرے دور، یعنی الیکشن 2008 کے بعد ملٹری کو اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے کچھ ہی لوگ میسر آسکے۔ میڈیا اور بیوروکریسی میں کچھ پراکسیاں موجود تھیں، لیکن وہ غلام اسحاق خان کے نیٹ ورک جتنی منظم و مضبوط نہیں تھیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ 2008 کے الیکشنز کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی میں موجود کسی بھی جماعت نے فوج کی گود میں بیٹھنے کا فیصلہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے یہ اسمبلی باقی تمام کے مقابلے میں زیادہ عرصہ قائم رہی۔ 2008 سے 2013 تک اسلامی جمہوری اتحاد کے جیسے کسی کردار نے سر نہیں اٹھایا۔

جس کسی کو بھی یہ تاریخ یاد ہے، اس کو عمران خان کی موجودہ سیاست اور 1989 کے بعد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست میں کچھ تبدیلیوں کے علاوہ مماثلت ہی ملے گی۔ مثال کے طور پر نہ ہی عدم اعتماد کی قرارداد لانے کی کوئی کوشش کی جارہی ہے، اور نہ ہی اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے اتحاد قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ایک سویلین حکومت کو گرانے اور اس کی فیصلہ سازی کو یرغمال بنانے کی سرتوڑ کوشش، اور اس کے مینڈیٹ، اس کی ساکھ اور اس کے اخلاص پر انگلیاں اٹھانا سب کچھ پچھلے دور ہی کے جیسا ہے۔ سیاست کے اسی انداز نے ہمیں گذشتہ کئی سالوں سے غیرفعال کر رکھا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر khurramhusain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Zahid Khan Kakar Nov 12, 2014 09:41am
it is a very good article to expose the existing dharna parties. The Author have missed very important point of games of power, the establishment is always not ready to compromise on the charge of Foreign and Internal Security Policy. And in my opinion the existing conflict of dharna etc was started on Musharaf and Foreign policy of the country. And now The Civilian Govt have bent their knee infront of power full military and Civil bureaucracy and withdrawl from these policies.

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025