جھولتی قیمتیں
عجیب چیزیں واقع ہورہی ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو اپنے اصلاحاتی پروگرام کے ٹریک پر ہونے کے حوالے سے مطمئن کرنے، اور لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش میں ان کی بہتری کے اقدامات کرنے کے درمیان درست توازن قائم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔
تو جب نیپرا کہتی ہے کہ بجلی کی قیمت میں کمی ہونی چاہیے، تو قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مئی میں گندم کی امدادی قیمت میں کوئی ردوبدل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور اب اچانک اس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی، اور ساتھ میں بیان دیا گیا ہے کہ وزیراعظم بذات خود اس ضرورت کے وقت میں ہم غریب انسانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب اسی اعلان میں آئل ڈیلرز کا مارجن بھی بڑھا دیا گیا۔ اور اب ہم گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا سن رہے ہیں، تاہم ابھی اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ اچانک کیسے ایک کے بعد ایک مختلف سہولیات کی قیمتوں میں اہم ردوبدل ہورہا ہے؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہی ہے جو حکومت کے خیال میں ناراض ہوکر عمران خان کے ساتھ مل رہی ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف کے سامنے اپنی ساکھ بچانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
بجلی کی قیمتوں کا تصور کریں، جو پاکستانی سیاست میں کافی ہنگامہ خیز موضوع رہا ہے۔ حقیقی صورتحال کیا ہے، میڈیا میں موجود کنفیوژن اس حوالے سے مددگار نہیں ہوتی۔ بجلی کی قیمتوں کے تین مختلف حصے ہیں، جہاں ردوبدل کیا جارہا ہے۔ بنیادی ٹیرف، فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج اور ایکولائزیشن سرچارج، تو میڈیا رپورٹ کرتا ہے کہ قیمت میں اضافہ کیا گیا، اور پھر کمی کردی گئی۔
بعد میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافہ تو بنیادی ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ تھا، جبکہ کمی فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں ہوئی۔ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج پر نظرِثانی تو معمول ہے، جبکہ بنیادی ٹیرف جب ایک بار سیٹ کردیا جائے، تو تبدیلی کے لیے کافی لمبا طریقہ کار ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت آج ٹیرف میں اضافہ کردے اور فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں اتنی ہی کمی کردے، تو صارفین کو زیادہ بلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ایک بار جب ٹیرف بڑھ جائے، تو اگلے مہینے بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت عوامی ذہنوں میں اس حوالے سے بہت زیادہ کنفیوژن ہے، کہ آخر ٹیرف کے معاملے میں یہ ہو کیا رہا ہے، اور یہی الجھن میڈیا کے اندر بھی پائی جاتی ہے، جس سے حکومت کو گمراہ کن بیانات جاری کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ، کہ ٹیرف میں حالیہ اضافہ واپس لے لیا گیا ہے، اور جب جائزہ لیا گیا تو یہ اضافہ درحقیقت فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں واپس لیا گیا تھا۔
اب اووربلنگ اسکینڈل کی جانب آتے ہیں، جو کہ ابھی چل رہا ہے اور اس کے پیچھے کچھ وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔ مگر اووربلنگ کے معاملے میں بھی کنفیوژن کی صورتحال کا عالم وہی ہے۔ ایسا نظرآتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس الزام سے بچنے کے لیے مضطربانہ کوشش کی جارہی ہے جبکہ یہ ٹیرف میں اضافے کی بھی خواہشمند ہے۔ پاور بیوروکریسی کو کنٹرول میں رکھنے کے حوالے سے واضح خوف پایا جاتا ہے اور یہ خوف متعدد حکومتوں میں موجود رہا ہے۔ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ خوف کہاں سے آتا ہے، مگر میرے پاس اس سے متعلق کچھ تھیوریز ہیں، جن پر پھر کبھی بات کریں گے۔
گندم کی امدادی قیمت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ حکومت نے مئی میں اس میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر حال ہی میں اس میں گندم کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے ساتھ اضافہ کردیا گیا ہے۔ میں کاشتکاروں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں، اور جانتا ہوں کہ کسی جمہوری حکومت کے لیے ان کی آمدنیوں کا تحفظ کتنا ضروری ہے، چاہے اس کے نتیجے میں شہری صارفین کو زیادہ مہنگائی کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
جو چیز واضح نہیں، وہ ذہن کے تیزی سے تبدیل ہونے کے پیچھے کی وجوہات ہیں۔ بوائی کا سیزن شروع ہورہا ہے اور اگر امدادی قیمت میں اضافہ اقتصادی وجوہات کی بنا پر ضروری تھا، تو کم از کم حکومت کو اس کی وضاحت تو کرنی چاہیے تھی۔ مگر ایک بار پھر حکومت نے اس اہم فیصلے کے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے، جس سے یہ افواہیں ابھر رہی ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امدادی قیمتوں کے فنڈز کا بڑا حصہ جنوبی پنجاب میں استعمال ہوتا ہے، جہاں حکومت ملتان میں ہونے والے آخری ضمنی انتخابات کے نتیجے کے بعد اپنے حمایتی حلقوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔
اس طرح کی چیزیں اب تیزی سے ہورہی ہیں۔ ایسے فیصلے جو بظاہر اقتصادی منطق کے خلاف ہیں، ان سے ہم کیا سمجھیں؟ اگر اس کا مقصد سخت مالیاتی صورتحال کے پیش نظر حکومتی اخراجات کو پورا کرنا ہے تو بھی دونوں سمتوں میں جاری ردوبدل قابلِ فہم نہیں ہے۔ اور اگر یہ فیصلے واقعی معاشی صورتحال کے باعث کیے گئے ہیں، تو پھر ان کے بارے میں گمراہ کن بیانات جاری کرنا بھی ناقابلِ فہم ہے۔
جو بہترین وضاحت ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی حمایت بھی حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت واقعی مشکل صورتحال کا شکار ہے، اور دھرنے اس حد تک تو کامیاب ہوئے ہیں کہ انہوں نے حکومت کو انتہائی اہم معاملات میں دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کردیا ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ روایتی طور پر آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ جو نرمی برتی ہے، وہ اب اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے، اور حکومت کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے جھکنا پڑ رہا ہے۔
اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی ایک خبر ہے جس کے مطابق خیبرپختونخوا میں صنعتی یونٹس کو ٹیکس سے خاطرخواہ استثنیٰ دینے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس مجوزہ استثنیٰ پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے اسے "انتہائی برا خیال" قرار دیا۔ دبئی میں ری شیڈول ہونے والی میٹنگز سے کچھ پہلے ہی کھلے عام ایسا اظہارِ خیال غیرمعمولی تو ہے، لیکن انوکھا نہیں۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ حکومت نے اس خیال کو ترک کردیا گیا ہوگا، اور آخر کار یہ انتہائی برا خیال ہی تو تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ مالیاتی فریم ورک کسی ٹھوس پلاننگ کے بجائے بے ترتیبی سے چلایا جارہا ہے۔ اور یہ باقی ماندہ مالیاتی سال میں بہتر اقتصادی مینیجمنٹ کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ اہم ہے کہ حکومت یا تو اپنے اقدامات درست کرے، یا اپنے بیانات کو درست کرے۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر khurramhusain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
khurram.husain@gmail.com
یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔