لوکسٹا: تاریخ کی پہلی پیشہ ور قاتل
طاقت اور اقتدار کی ہوس ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا فرق ختم کر دیتی ہے۔ لالچ میں اندھے ہو کر خون کے رشتے ایک دوسرے ہی کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جن میں خودغرض انسان نے پیسے، شہرت، طاقت، یا کسی بھی ہوس سے مغلوب ہو کر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، لیکن خود بھی اپنے ہی تیر کا شکار ہوا۔ یہاں حرص و ہوس کی ایسی ہی ایک داستان کا ذکر ہے۔
پیکس رومانہ (Pax Romana) وہ زمانہ تھا جب رومن ایمپائر میں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا۔ اس دور میں رومن دوسرے علاقوں پر قبضے کرنے اور خون خرابے کے بجائے اپنی سلطنت کی بہبود اور قانون کی بالادستی کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن کیا واقعی یہ دور رومن سلطنت کا سنہرا دور تھا؟
رومن سلطنت کا یہ سنہرا دور بدعنوانی، قتل و غارتگری اور سیاسی جوڑ توڑ سے بھرپور تھا۔ قانون کی بالادستی نامی چڑیا صرف تاریخ کی کتابوں میں نظر آسکتی ہے کیونکہ اس زمانے میں رومن سلطنت کی ناک کے نیچے "لوکسٹا" نامی ایک سازشی قاتلہ نہ صرف عیش وعشرت کی زندگی گزارتی رہی، بلکہ رومن ارباب اختیار اس کی گراں قدر 'خدمات' سے مستفید بھی ہوتے رہے۔ بدلے میں لوکسٹا کو قانون سے مکمّل تحفظ حاصل رہا، اور ساتھ ہی اپنا 'ہنر' اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے مواقع بھی ملے۔
روم کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی لوکسٹا آف گول جڑی بوٹیوں کے ذریعے زہر تیار کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔ روم میں اس نے دیکھا کہ لوگ خصوصاً امراء انتہائی لالچی ہیں اور اپنے مخالفین کے خاتمے اور ان کی دولت ہتھیانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ ضرورت محض اس بات کی تھی کہ ان اموات پر قدرتی موت کا گمان ہو۔
دولت کی فراوانی اور اپنے عزائم کے لیے اسے استعمال کرنے والوں کی بہتات، لوکسٹا کے لیے اپنا منفرد ہنر آزمانے کا اس سے بہترین موقع اور کہاں ملتا، وہ ایک پیشہ ور قاتلہ بن گئی۔ اس کے زہر سے مرنے والوں پر قدرتی موت کا گمان ہوتا اور اس طرح وہ اور اس کے 'کلائنٹ' قانون کی گرفت سے بچے رہتے۔ ویسے بھی اس کے کلائنٹس سوسائٹی کے بااثر افراد تھے جو اس پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دیتے۔
اس بے رحم شاطر قاتلہ نے اپنی زندگی سینکڑوں جڑی بوٹیوں سے زہر کشید کرنے اور درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے وقف کردی۔ اس نے مشرومز سے لے کر انسانی خون تک کو اپنے مہلک تجربات کے لیے استعمال کیا۔ اپنے ہنر کی بدولت لوکسٹا جلد ہی اعلیٰ طبقے میں اتنی مقبول ہوگئی کہ ایک دن اسے شاہی محل سے بھی خفیہ بلاوا آگیا۔
شہنشاہ کلاڈیس کی چوتھی بیوی اگریپینا اپنے بیٹے نیرو کو روم کا شہنشاہ بنانا چاہتی تھی (نیرو، کلاڈیس کا بیٹا نہیں تھا بلکہ اگریپینا کے سابقہ شوہر سے تھا) اور اس کے لیے کلاڈیس کو راستے سے ہٹایا جانا ضروری تھا، ساتھ ہی اس کی موت کو قدرتی لگنا بھی ضروری تھا۔ ظاہر ہے یہ کام لوکسٹا کے سوا اور کون کرسکتا تھا۔
اگریپینا نے لوکسٹا کو بتایا کہ شہنشاہ مشرومز کے شوقین ہیں، چناچہ مشروم کے ذریعے کلاڈیس کو زہر دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ شہنشاہ کے خادموں کو رشوت دے کر چھٹی دے دی گئی اور ملکہ نے اپنے ہاتھوں سے وہ زہریلے مشروم شہنشاہ کی خدمت میں پیش کیے، جنہیں کھاتے ہی کلاڈیس کی حالت غیر ہوگئی۔ ملکہ نے بناوٹی گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بادشاہ کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن لاحاصل زہر اپنا کام کرچکا تھا۔ شہنشاہ کلاڈیس مر گیا اور اس کی جگہ نیرو کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس طرح لوکسٹا کے کالے کارناموں میں ایک اور کارنامے کا اضافہ ہوگیا۔ بہرحال کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
ایک سال بعد لوکسٹا کو ایک اور قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی لیکن اس بار اس کو بقلم خود شہنشاہ نیرو نے بچایا۔ لوکسٹا پر یہ مہربانی اس کی پرانی خدمات کے صلے میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ شہنشاہ نیرو اپنے ایک مخالف کو ٹھکانے لگوانا چاہتا تھا جو دراصل مقتول شہنشاہ کلاڈیس کا اصل وارث بھی تھا۔ نیرو کو اپنے چودہ سالہ سوتیلے بھائی بریٹینکس سے خطرہ لاحق تھا۔ اس کا واحد حل یہی تھا کہ بریٹینکس کو اپنے باپ کلاڈیس کے پاس پنہچا دیا جائے۔ چنانچہ بریٹینکس کی 'قدرتی' موت کے لیے بھی ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔
منصوبہ یہ تھا کہ بریٹینکس کو رات کے کھانے کے دوران زہریلی شراب دی جائے گی۔ یہ ایک بہترین موقع تھا کیونکہ اس وقت شاہی خاندان کے دیگر اراکین بھی بطور گواہ میز پر موجود تھے۔ ان کی نظروں کے سامنے بریٹینکس نے زہریلی شراب کا گھونٹ بھرا اور تھوڑی ہی دیر بعد زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ نیرو نے یہ کہہ کر مہمانوں کو مطمئن کروا دیا کہ بریٹینکس کو مرگی کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ مہمان، نیرو کی اس وضاحت سے مطمئن ہوئے ہوں یا نہیں، لیکن اس وقت کسی میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ بادشاہ کی مرضی کے خلاف درد سے تڑپتے بریٹینکس کی مدد کرسکے۔
چند گھنٹوں بعد بریٹینکس نے دم توڑ دیا اور راتوں رات اس کی آخری رسومات بھی ادا کر دی گئیں۔ نیرو کے راستے کا آخری کانٹا بھی نکل چکا تھا اور یہ سب لوکسٹا کی مدد سے ممکن ہوسکا۔ وہ ایک قیمتی اثاثہ تھی چنانچہ اس کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ انعام و اکرام کی بارش کی گئی، جاگیریں عطا کی گئیں، اور تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔
قسمت کی دیوی لوکسٹا پر مہربان تھی، اس کا ہنر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا۔ شاہی کارنامے کے بعد وہ مزید مشہور ہوگئی اور اتنی ہی مصروف بھی۔ اس نے ایک اسکول کا آغاز کیا جہاں جڑی بوٹیوں اور ان کے زہریلے اثرات کی تعلیم دی جاتی۔ بادشاہ کی سرپرستی میں اس کا کاروبار خوب چمک رہا تھا۔ لیکن یہ شان و شوکت بہت عرصہ قائم نہیں رہی۔
ہر عروج کو زوال ہے اور اسی طرح لوکسٹا کے زوال کا دن بھی آہی گیا جب بالآخر ریاست میں نیرو کے خلاف بغاوت ہوگئی اور نیرو کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ فرار سے پہلے لوکسٹا نے بطور آخری خدمت نیرو کے لیے ایک خاص زہر تیار کیا جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔ شومئی قسمت افراتفری کے عالم میں نیرو وہ زہر ساتھ رکھنا بھول گیا۔ جب گرفتاری کا وقت قریب آیا تو نیرو نے اپنے ذاتی سیکریٹری کی مدد سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، اور یوں اپنی جان چھڑا لی۔
لیکن لوکسٹا کی جان اتنی آسانی سے نہیں چھوٹی۔ نیرو کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی بھی لوکسٹا کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ اب کوئی گمنام شخصیت نہیں تھی جسے باآسانی فراموش کردیا جاتا۔ اس پر لاتعداد قتل کے الزامات تھے۔ نیرو کی موت کے محض ایک سال بعد سن انہتر عیسوی میں اسے گرفتار کر لیا گیا اور قاتلہ اور جادوگرنی قرار دیتے ہوئے فوراً موت کی سزا سنا دی گئی۔
یوں لوکسٹا تو مر گئی لیکن تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے ایک قابلِ مذمت قاتلہ کے طور پر محفوظ ہوگیا۔ غور کریں تو لوکسٹا جیسے کردار تاریخ کے ہر دور میں موجود ہوتے ہیں، جن کا استعمال ذاتی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کا بھی حشر وہی ہوتا ہے جو کبھی ان کے شکار کا ہوا تھا۔ لوکسٹا جب تک بااثر حلقوں کے کام آسکتی تھی، تب تک اسے قانون سے مکمل تحفظ فراہم کیا گیا، اور جب ایک ایک کر کے تمام افراد اس کے ذریعے راہ سے ہٹا دیے گئے، تو اس کو بھی اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا۔
اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ تفصیلات موجود نہیں اور جو کچھ قدیم لٹریچر میں موجود ہے وہ فکشن کا حصّہ ہے۔ بعض تاریخ دان لوکسٹا آف گول کو انسانی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی پہلی سیریل کلر مانتے ہیں۔
لوکسٹا کی کہانی پیشہ ور قاتلوں کے لیے ایک سبق ہے کہ جس طرح وہ پیسے لے کر کسی کو قتل کر سکتے ہیں، اسی طرح کوئی اور بھی اپنا کام نکل جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے، اور یوں قاتل بھی ایک روز موت کے شکنجے میں آ ہی جاتا ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں Wikipedia ،wednesdaymourning.com، اور historyswomen.com سے مدد لی گئی ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں