ہمارے گلزار
وہ زمانہ جب زمین سانجھی اور راستے یکجا تھے، اس دور کی علامتیں اب ناپید ہو چلیں۔ غیر منقسم ہندوستان میں لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے آزاد تھے، پھر دور بدلا، حالات بدلے، ہجرتیں ہوئیں اور کوئی کہیں سے کہیں چلا گیا۔ اس دور کی منظر کشی کرنے والے لوگ اب بہت کم ہیں، اور آج کی تحریر ایسے ہی تہذیبی شخص کے تذکرے پر مبنی ہے۔
ہندوستان میں بسنے والے پاکستان کے اس عاشق کا نام 'گلزار' ہے، جنہوں نے کسی ایک طرف کا ہونا منظور نہیں کیا۔ وہ جتنے ہندوستانی ہیں، ان کے دل میں اس سے کہیں زیادہ چاہت پاکستان کے لیے ہے۔ ان کی آواز سے لے کر قلم سے تخلیق ہونے والے ہر لفظ میں یہ احساس اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہے۔ گلزار اپنے لہجے میں 'گل' ہیں اور فن میں 'زار' بھی۔ اسی لیے پاکستانیوں نے بھی ان کے قدموں میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا۔
گلزار کی نظموں میں محبت خوشبو بھرے لہجے میں کلام کرتی ہے۔ ان کے قلم سے تخلیق ہونے والے مکالمے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا خیال اور حقیقت کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ ان کی آواز میں صدیوں کے سفر کی ایسی مسافت سنائی اور دکھائی دیتی ہے، جس نے ہزار لہجوں کے موسم پڑھے ہوں، اور ان گنت خوشبوؤں کو اپنے اندر بسایا ہو۔
گلزار جب گفتگو کرتے ہیں، تو خاموشی ان کے احترام میں اپنا قیام طویل کر لیتی ہے اور جب خاموش ہوتے ہیں تو خاموشی بولنے لگتی ہے۔ اس خاموشی میں گلزار کے تراشے ہوئے لفظوں کی بازگشت ہوتی ہے، جس میں لہجہ کھنکتا ہے، فضا میں لفظوں کی معنویت گھل جاتی ہے، اور منظر بہت دیر تک محوِ گفتگو رہتا ہے۔
وہ اس زندگی کے مکین ہیں، جہاں سے باہر کا منظر دیکھنے کو ایسے روشن دان رکھے گئے ہیں، جن میں سے صرف خیال کی تازہ ہوا ہی اندر نہیں آتی، بلکہ ان کی نگاہ کا حسن بھی دور تک پھیلا ہوا ملتا ہے۔ ان کی آواز صداکاری کے جنگل میں کیفیت بن کر اپنا راستہ ڈھونڈتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔
گلزار کے چاہنے والے دونوں طرف ہیں۔ ہندوستان میں گلزار پر بہت کچھ لکھا گیا، لیکن پاکستان میں بھی کچھ کم نہیں لکھا گیا۔ یہاں گلزار کے بہت سے چاہنے والے ہیں، جن کی تحریروں میں گلزار کی طلسمی شخصیت اور فن کی سنہری چمک ملتی ہے۔ ایسے ہی ایک مصنف گل شیر بٹ نے گلزار کی زندگی اور فن پر ایک کتاب ”گلزار ۔ آواز میں لپٹی ہوئی خاموشی“ لکھی ہے۔
یہ سوانحی طرز کی کتاب ہے، لیکن اس کو لکھتے ہوئے مصنف نے شاعرانہ نثر میں قلم کو ڈبو کر گلزار کی زندگی کے حالات لکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گلزار اور ان کی شاعری سے محبت کرنے والے اس کتاب کو ایک ہی سانس میں پڑھ ڈالیں گے۔
گلزار کی شاعری میں سے ہی واقعات کا تسلسل تخلیق کرنے والے اس مصنف نے گلزار سے اپنی بے پناہ محبت میں ڈوب کر ایک زندہ رہنے والی کتاب قلم بند کی۔ 200 سے زیادہ صفحات پر پھیلی یہ کتاب اپنے نام کی طرح دھیمی، خاموشی میں حالات کے سکوں سے کھنکنے والی تخلیق ہے۔ یہ کتاب گلزار کے اس شعر:
ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی
چاند پکھراج کا، رات ہے پشمینے کی
کی عملی تفسیر ہے۔
گل شیربٹ جب گلزار کے سوانح عمری لکھ چکے، توانہوں نے سوچا کہ کیوں نہ گلزار کے چاہنے والوں کے سامنے گلزار کا فن رکھا جائے۔ تو پھر انہوں نے گلزار کی نظمیں، غزلیں، گیت، اور تروینی کو مرتب کر کے ایک ایسا مجموعہ ترتیب دیا، جس میں گلزار کے فن کے تمام رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ یہ ایسا مجموعہ ہے کہ گلزار کی تخلیق کی گہرائی سمجھنے کے لیے صرف اس کو پڑھ لینا کافی ہے۔
گل شیر بٹ کی ان دونوں کتابوں میں گلزار کی 'دینا' آمد کی تصاویر بھی ہیں اور ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کا عکس بھی۔ ان کی طرف سے اس کا شعری اظہار کچھ یوں ہے:
ہاتھ چھوٹے بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں، تقسیم بھی ہوجاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
گلزار کے حوالے سے ایک اور اہم کتاب شائع ہوئی، جس کا نام ”معصوم اور پریچے“ ہے۔ یہ گلزار کی لکھی ہوئی دو فلموں کے مسودے ہیں، جنہیں گلزار منظر نامہ کہتے ہیں۔ اس کتاب کے دیباچے میں وہ یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
”جو نظر آتا ہے، اُس کو منظر کہتے ہیں، اور مناظر میں کہی گئی کہانی کا نام منظر نامہ ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک سکرین پلے، دوسرا سینیریو، دونوں تقریباً ایک سے ہیں، لیکن سکرین پلے میں ’ڈزولو‘ اور ’کٹ‘ اور دوسری تکنیکی ہدایات بھی لکھ دی جاتی ہیں، جو ڈائریکٹر کی مدد کرتی ہیں۔ اس میں ’سیٹ‘ یعنی ’محل وقوع‘ اور منظر کا وقت بھی درج کیا جاتا ہے۔ (یعنی منظرنامہ صبح، شام، رات یا دوپہر، کس وقت کا ہے)۔
"یہ تفصیلات ڈائریکٹر کے لیے تبھی ضروری ہوتی ہیں، جب وہ سکرین پلے کو فلماتا ہے، ورنہ یہ تکنیکی ہدایات پڑھنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ اس لیے عام قاری کے پڑھنے کے لیے سینیریو ہی زیادہ موزوں ہے، تاکہ وہ ایک ناول کی صورت میں بنا کسی رکاوٹ کے پڑھ سکے، اُسی کا نام منظر نامہ ہے۔
"منظر نامے کا اندازِ بیان عموماً اوریجنل کہانی سے الگ ہوتا ہے، اس لیے وہ اصل کہانی یا ناول یا سوانح عمری کا نیا انسپیریشن بن جاتا ہے، جس کی مثال چند مشہور فلموں سے دی جاسکتی ہے۔ جیسے ”انارکلی“ اور "مغل اعظم" ایک ہی ڈرامے سے ماخوذ ہیں۔ ”دیوداس“ جتنی بار اور جتنی زبانوں میں بنی، اُس کا منظر نامہ بدلتا رہا۔"
خوشی اس بات کی ہے کہ ہم ایسی کئی کتابوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محبت کی سفارت کاری کی۔ یہ تینوں کتابیں شائع کرنے والے دو نوجوان امر شاہد اور گگن شاہد ہیں، جنہوں نے کتاب کے ذریعے گلزار سے محبت کا اعادہ کیا اور یہ تینوں خوبصورت کتابیں اپنے ادارے بک کارنر، جہلم سے شائع کیں۔
گلزار کے لکھے ہوئے لفظ تتلیاں اور پھول بن کر سماعتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان ست رنگی لفظوں کی مہک روح کو جل تھل کیے رکھتی ہے۔ وہ لفظ کسی بھی انداز میں تخلیق ہوں، سیدھے روح پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہی ان کے اپنے فن سے سچے ہونے کی گواہی ہے۔ خیال کے زور پر ان کے ساتھ ہم ادھر کو بھی نکل جاتے ہیں، جدھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہی ان کے فن کا نکتہ عروج ہے۔
تبصرے (10) بند ہیں