• KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:34am Sunrise 5:55am
  • ISB: Fajr 4:38am Sunrise 6:01am
  • KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:34am Sunrise 5:55am
  • ISB: Fajr 4:38am Sunrise 6:01am

ہم نے 2015 سے کتنا فائدہ اٹھایا؟

شائع December 31, 2015
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی جمہوری حکومت کو 2015 جیسا سال نصیب ہوا ہو۔ یہ سال نواز شریف کی حکومت کے لیے دور رس اقدامات کرنے کے لیے مواقع پلیٹ میں رکھ کر لایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے ان مواقع سے فائدہ اٹھایا؟

سال کا آغاز ہوا تو دھرنے ختم ہو رہے تھے اور ملک عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم لیے ایک پرچم تلے جمع ہو رہا تھا۔ سال کے آغاز پر کئی اعلانات کیے گئے، کچھ نے سرخیوں میں جگہ پائی تو کچھ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ سرخیوں میں جگہ پانے والے اعلانات میں نیشنل ایکشن پلان (نیپ) اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ تھے۔ دو مسائل جو زیادہ عرصہ سرخیوں میں نہیں رہے، وہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء اور مارچ 2016 تک مردم شماری کروانے کا وعدہ تھے۔

اب جبکہ یہ سال ختم ہو رہا ہے، تو یہ دیکھنا چاہیے کہ ان مسائل پر کیا پیش رفت ہوئی ہے۔

نیپ کے نتائج ملے جلے رہے ہیں، اور سال 2015 کے آخری دنوں میں اس پلان پر موجود سیاسی ہم آہنگی دباؤ کا شکار ہے۔ پی پی پی اسے اب ن لیگ ایکشن پلان قرار دے رہی ہے اور حکومت پر نیپ کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات عائد کر رہی ہے۔

نیپ کا ایک بنیادی اور اہم حصہ دہشتگردوں کی مالی امداد روکنا تھا، اور اس شعبے میں بمشکل ہی کوئی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کچھ گرفتاریوں کے علاوہ دہشتگردوں کی مالی امداد مانیٹر کرنے اور روکنے کے لیے کوئی باقاعدہ نظام وضع نہیں کیا گیا ہے، اور سال کے وسط میں قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشتگردی (نیکٹا) کو وزیرِ اعظم کو دہشتگردوں کی مالی امداد کے الزام میں منجمد کیے گئے اثاثوں کے بارے میں غلط اعداد و شمار فراہم کرتے ہوئے بھی پکڑا گیا۔

پاک چین اقتصادی راہداری کو بھی سرخیوں میں نمایاں جگہ ملی ہے اور سال کے اختتامی دنوں میں ہم نے تین بڑے پراجیکٹس — تھر کول، اورنج لائن، اور پورٹ قاسم پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پاور پلانٹ — کے لیے فنڈز جاری ہوتے دیکھے۔ تینوں پراجیکٹس خوش آئند ہیں، بھلے ہی اورنج لائن پراجیکٹ کے حوالے سے چند ماحولیاتی مسائل موجود ہیں۔

مگر دوسری جگہوں پر اقتصادی راہداری منصوبے کو چند مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سال قائدِ اعظم سولر پارک کو کامیابی سے لانچ کیا گیا اور اس نے پیداوار بھی شروع کی۔ مگر بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے اگلے راؤنڈ کے لیے اعلان کردہ سولر ٹیرف کافی گھٹا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کار منصوبے جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر غور کر سکتے ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے پراجیکٹس کے اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور جب تک کہ پراجیکٹس میں شفافیت نہ ہو، تب تک یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ اتنے ہی فائدہ مند اور 'انقلابی' ہوں گے جتنے کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے۔

این ایف سی ایوارڈ پر بھی کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس حوالے سے صرف ایک اہم میٹنگ اپریل میں ہوئی تھی۔ شروع میں سب نے ممبر نامزد کرنے کے لیے سندھ کا انتظار کیا، اور اب سب پنجاب کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ اس کا نامزد کردہ ممبر صوبائی وزیرِ خزانہ بن چکا ہے۔

گذشتہ مالی سال بغیر کسی نئے اتفاق کے ختم ہوا، اور اب ملک ایک عارضی بندوبست کے تحت گذشتہ ایوارڈ پر چل رہا ہے۔ صدر نے گذشتہ این ایف سی ایوارڈ کی مدت میں ایک سال کا مزید اضافہ کیا تاکہ اتفاقِ رائے قائم ہو سکے مگر اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے، کیونکہ 1 جولائی کو مدت میں اضافے کے بعد سے چھ ماہ گزر چکے ہیں مگر صوبوں اور وفاق کے درمیان کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اگلے چھ ماہ میں اتفاقِ رائے ہو جائے مگر وفاق کے سندھ اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ ایسے کسی بھی اتفاقِ رائے کے لیے بہت ماہرانہ سیاست کی ضرورت ہوگی۔

اس کے علاوہ مردم شماری بھی ہے جس کا اعلان مارچ 2015 میں کیا گیا تھا اور مارچ 2016 تک کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مردم شماری کے منصوبے میں ستمبر تک تمام مردم شماری بلاکس کو اپ ڈیٹ کرنا اور تمام بڑے موضعوں کا جی پی ایس کے ذریعے سروے کرنا شامل تھا۔ اب تک شہری علاقوں کے ڈیجیٹل نقشے بن جانے چاہیے تھے، ڈیٹابیس میں بلاکس اپ ڈیٹ ہوجانے چاہیے تھے، موضعوں کا 50 سے زیادہ ٹیموں کی مدد سے سروے ہوجانا چاہیے تھا، اور اس پوری مشق پر 1.2 ارب روپے جاری اور خرچ ہوجانے چاہیے تھے۔

آج وفاقی ادارہء شماریات کے سیکریٹری نے تصدیق کی ہے کہ 60 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جبکہ جنوری تک مزید 1.2 ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ منصوبہ بالکل اپنے ٹریک پر ہے پر اب صرف فوج کی جانب سے افرادی قوت کو سکیورٹی فراہم کیے جانے سے مشروط ہے۔ مردم شماری کے لیے ضروری پیشگی انتظامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے جو کرنا تھا، کر لیا ہے"۔ موضعوں کا سروے کیا جانا ہے، مردم شماری کے بلاکس اپ ڈیٹ کیے جانے ہیں، شہری علاقوں کے ڈیجیٹل نقشے تیار کیے جانے ہیں۔ "جہاں ممکن تھا، وہاں ہم نے یہ معلومات اپ ڈیٹ کردی ہیں، اور جہاں ممکن نہیں تھا، وہاں ہم پرانے بلاکس پر کام کریں گے، مگر مردم شماری کسی بھی صورت میں ان وجوہات کی بناء پر تعطل کا شکار نہیں ہوگی۔"

اگر مردم شماری واقعی وقت پر ہوتی ہے، یا کچھ تاخیر کے ساتھ ہی سہی، مگر ہو جاتی ہے، تو یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی، خاص طور پر تب جب اس کے نتائج متنازعہ نہ بنیں۔ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ایک دہائی سے پالیسیوں کی تیاری اور عملدرآمد میں رکاوٹ اور مشکلات کا سامنا ہے، اور اگر یہ کام ہوجاتا ہے تو یہ اگلے سال کی ایک بہت مثبت چیز ہوگی۔

ہم 2015 میں ملکی معیشت کے صورتحال پر اٹھنے والے سوالوں پر بحث کر سکتے ہیں، جن میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے، سست شرحِ نمو، بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی شامل ہے۔ مگر جو مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں اور جو ہماری معیشت پر پڑی گرد ہٹا سکتے ہیں، وہ سکیورٹی، سیاسی استحکام، صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات، مستحکم حکومتی خزانہ اور مردم شماری ہیں۔ سال 2015 میں ان تمام محاذوں پر ملی جلی کامیابیاں ملی ہیں، مگر ہم نے اتنے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جتنے کہ ہم نے گنوائے ہیں۔ امید ہے کہ 2016 ایک اچھا سال ہوگا۔

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

[email protected]

ٹوئٹر: khurramhusain@

یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 دسمبر 2015 کو شائع ہوا.

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 28 ستمبر 2024
کارٹون : 27 ستمبر 2024