• KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:34am Sunrise 5:55am
  • ISB: Fajr 4:38am Sunrise 6:01am
  • KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:34am Sunrise 5:55am
  • ISB: Fajr 4:38am Sunrise 6:01am

تعلیمی اداروں کو محفوظ کیسے بنایا جائے؟

شائع January 20, 2016
لکھاری ریٹائرڈ ملٹری افسر ہیں اور سکیورٹی اور انٹیلیجنس کا تجربہ رکھتے ہیں.
لکھاری ریٹائرڈ ملٹری افسر ہیں اور سکیورٹی اور انٹیلیجنس کا تجربہ رکھتے ہیں.

سکیورٹی شعبے میں اپنے تجربے کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں اس حوالے سے کچھ معلومات آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ اسکولوں (اور دیگر تعلیمی اداروں) کو کس طرح محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ ان معلومات کی بناء پر والدین اپنے بچوں کے اسکولوں کی انتظامیہ سے درست سوال کر سکیں گے تاکہ بہتر سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔

ہم طلبا اور اساتذہ کا تحفظ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟

— اسکول سے پوچھیے کہ کیا انہوں نے کسی سکیورٹی ماہر یا ادارے سے 'دہشتگردی کے خطرے' کا تحریری جائزہ کروایا ہے، اور کیا کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی عملی مشقیں کروائی گئی ہیں؟

— پرنسپل اور دیگر اسٹاف سے ہنگامی حالتوں مثلاً آتشزدگی، بم کی اطلاع اور دہشتگرد حملے کی صورت میں مناسب منصوبوں کے بارے میں پوچھیں۔ کیا اسکول حکام اور نامور سکیورٹی ماہرین باقاعدگی سے حفاظتی اقدامات پر بات کرنے کے لیے میٹنگ کرتے ہیں؟ کیا وہ دن کے مختلف اوقات میں حفاظتی مشقوں کا اہتمام کرتے ہیں؟ ہر اسکول کے پاس ہنگامی حالت سے نمٹنے کا منصوبہ ہونا چاہیے، اور اسکول اسٹاف اس حوالے سے تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔ ان کے پاس آتشزدگی، بم کی اطلاع، دھمکی آمیز فون کالز، دہشتگردوں کے اندر گھس آنے وغیرہ سے نمٹنے اور اسکول خالی کروانے کے منصوبے تحریری طور پر موجود ہونے چاہیئں۔

— اسکول سے پوچھیے کہ کیا انہوں نے کسی پروفیشنل سکیورٹی ادارے سے سکیورٹی گارڈ بھرتی کیے ہیں۔ اگر آپ کے بچے کے اسکول کے پاس اس حوالے سے جامع منصوبہ موجود نہیں تو ڈپٹی کمشنر، ضلعی پولیس افسر اور سول سوسائٹی و میڈیا کو آگاہ کریں تاکہ اسکول پر اس حوالے سے دباؤ ڈالا جا سکے۔

اسکولوں کے لیے رہنما اصول:

— کسی پروفیشنل نجی سکیورٹی ماہر سے اپنے اسکول کو لاحق خطرات کا مکمل سروے کروائیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں ردِعمل کے مناسب منصوبے تیار کیے جاسکیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتی مشینری جدید رجحانات سے واقف نہیں ہے۔ ہر اسکول کے پاس اپنے طرزِ تعمیر، منزلوں کی تعداد، رسائی کی آسانی اور دہشتگردوں کے لیے پرکشش ہدف ہونے کے عوامل کی بنا پر اسکول کو لاحق خدشات کا مکمل جائزہ تیار کیا جانا چاہیے۔

— آج کل اسکولز کئی طرح کی عملی مشقیں کرواتے ہیں تاکہ طلبا، اساتذہ اور اسٹاف کو مسلح حملہ آوروں سے بچایا جا سکے۔ آسان ترین حفاظتی اقدام لاک ڈاؤن ہے جس میں طلبا اور اساتذہ چھپنے، کھڑکیوں اور دروازوں سے دور رہنے اور خاموش رہنے کی مشق کرتے ہیں۔ انتہائی خطرے کی صورت میں ایسی جگہیں موجود ہونی چاہیئں جن کی کھڑکیاں اور دروازے مضبوط ہوں جہاں زیادہ سے زیادہ اسٹاف اور طلبا پناہ لے سکیں۔

— ہنگامی حالت سے نمٹنے اور حفاظتی اقدامات کے منصوبے کا نامور سکیورٹی ماہرین سے تجزیہ کروانا چاہیے۔

— ایک اور طرح کی حفاظتی مشق میں قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں جیسے کہ پولیس، ریسکیو 1122 اور دیگر نجی سکیورٹی اداروں کی مدد لی جاتی ہے تاکہ بچوں اور بڑوں کو دفاعی اقدامات سکھائے جا سکیں جن میں نہ صرف چھپنا شامل ہو، بلکہ یہ بھی کہ کس وقت باہر نکلنا ہے، اور متنازع طور پر، حملہ آوروں سے سامنے کی صورت میں اسٹاف کی مزاحمت شامل ہے۔ اسی طرح کا ایک پروگرام ALICE (خبردار ہونا، چھپنا، اطلاع دینا، سامنا کرنا، اور باہر نکلنا) امریکا میں نافذ العمل ہے۔

— اس بات کی تربیت ہونی چاہیے کہ اگر کوئی اسٹاف ممبر اساتذہ اور طلبا کو اس بات کی اطلاع دے کہ اسکول کے کسی حصے میں کچھ ہو رہا ہے تو انہیں تمام اہم باتوں کا علم ہو مثلاً دروازے و کھڑکیاں کہاں ہیں، کیا ہم اسکول سے باہر نکل سکتے ہیں؟

— میں اسکولوں کے کسی بھی ایسے حفاظتی منصوبے کے خلاف ہوں جن میں بچوں کو اپنے منصوبے بنانے سکھائے جاتے ہوں۔ آپ کسی اسکول کے بچوں سے کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ آخری لمحے میں اور زندگی اور موت کی صورتحال میں انتہائی مربوط حکمتِ عملی بنا لیں گے؟ اور خصوصی بچوں کا کیا ہوگا؟

— طلبا سے اجتماعی طور پر گفتگو کریں، ان کے سوالات کے جواب دیں اور اسکول کے تحفظ سے متعلق ان کی پریشانی دور کریں۔ بچے چاہے کتنے ہی بہادر کیوں نہ نظر آئیں، آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے سانحات ان میں گہرا خوف چھوڑ دیتے ہیں، جس سے والدین اور اساتذہ کو نمٹنا چاہیے۔ اسکولوں پر مسلح حملوں اور بم دھماکوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں اور سوالات کو دور کیا جانا چاہیے۔

— اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس اور ریسکیو 1122 جیسے اداروں کے پاس اسکول کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ اس سے ان اداروں کو مؤثر حکمتِ عملی بنانے میں مدد ملے گی۔

— اسکولوں کو سال میں کئی دفعہ ہنگامی حالت کی مشقیں کروانی چاہیئں تاکہ اساتذہ، طلبا اور اسٹاف ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔

یہ صرف کچھ رہنما اصول ہیں جن سے اسکولوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے اساتذہ صرف اس وقت علم بانٹ سکیں گے اگر وہ خود کو اسکول کے اندر محفوظ تصور کریں گے۔

انگلش میں پڑھیں.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔

اعجاز احمد قیصر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Umar Jan 20, 2016 03:03pm
D.C.O call to college principal for security issues about college like char dewari. In evening principal come with some sweets and other gifts at D.C.O home. Then, D.C.O said your college is safe now. ......? THis is security

کارٹون

کارٹون : 28 ستمبر 2024
کارٹون : 27 ستمبر 2024