گیس کا کیس
ہمیں اب ایک فیصلہ کرنا ہو گا، اور اس فیصلے میں حکومت کے ساتھ ان تمام طبقات کو بھی ہاتھ ملانا ہوگا جو کہ اس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مستفید ہو رہے ہیں.
جی ہاں، ہمیں ملک بشمول اور بالخصوص پنجاب میں ہر موڑ پر کھلے CNG اسٹیشنز کو بند کرنا ہوگا اگرچہ اس فیصلے سے ہزاروں لوگ بیروزگار بھی ہو جائیں گے لیکن اسکا بھی حل موجود ہے اور وہ یہ کہ CNG کو صرف اور صرف پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے مختص کر دیا جائے اور باقی تمام گاڑیوں پر اس ایندھن سے مستفید ہونے پر پابندی لگا دی جائے کیوں کہ قدرتی گیس ایک قیمتی ایندھن ہے جس سے گاڑیوں کے سلنڈر بھرنے سے کہیں زیادہ بہتر کام لئے جا سکتے ہیں.
ایک ڈکٹیٹر نے بیک جنبش قلم ملک کی معیشت کے بارے میں فیصلہ کیا کہ قیمتی قدرتی گیس کو گاڑیوں کے لئے بطور ایندھن مہیا کر دیا جائے. اس فیصلے سے پہلے کوئی جامع کام سامنے نہیں آیا کہ جس میں سائنسی بنیادوں پر ملک کے قدرتی گیس کے ذخائر کا درست تخمینہ لگایا جاتا شائد چند خوشامدیوں سے اس فیصلے پر مہر اثبات ثبت کروا کر اپنے دل کو تسلی دی گئی ہو تو دی گئی ہو عوام کے سامنے کبھی ایسی کوئی چیز آئی.
یہاں شائد ہماری روایتی سوچ بھی 'کام' آئی ہو جو ہمیں حقیقت سے 'پرہیز' سکھلاتی ہے اور اس فیصلے میں بھی لگتا ہے کہ جیت ان 'ڈرائنگ روم' تجزیوں کی ہوئی جن کے مطابق پاکستان کے گیس کے ذخائر کبھی ختم نہیں ہو سکتے تھے.
یہ بیچارے تو شائد یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ اگرچہ پاکستان میں قدرتی گیس کی ترسیلاتی کمپنی سوئی، بلوچستان کے نام پر ہے لیکن پاکستان کی قدرتی گیس کی پیداوار میں صوبہ سندھ کا حصہ 70 فیصد کے لگ بھگ ہے.
پھر بھی ایک قیمتی قدرتی ایندھن کو گاڑیوں کے سلنڈر میں ٹھونس دیا گیا آخر کو اس معاشی بلبلے کو بھی تو قائم رکھنا تھا جسے کمانڈو صاحب کے معاشی نورتنوں نے جنم دیا تھا. اس فیصلے کے محرکات میں سڑکوں پر گاڑیوں کی بہتات نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا اور اس کارنامے کے خالق بھی وہی بازیگر تھے جنکے نزدیک کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اس ملک کی سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں سے جانچی جا سکتی ہے.اس فیصلے کا انجام ہمارے سامنے ہے.
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود کھاد بنانے کے کارخانوں کو گیس کی لوڈ شیدڈنگ کا سامنا ہے. سستی گیس سے بجلی نہیں بنائیں گے کیونکہ جو گیس موجود ہے اس سے گاڑیاں سڑکوں پر فراٹے بھر رہی ہیں. ٹیکسٹائل کی کماؤ صنعتیں ارباب اختیار کو دہائی دے دے کر گلا خشک کر چکی ہیں کہ خدارا CNG کا بوریا بستر لپیٹیے لیکن یہاں جوں نہ رینگی اور حد یہ کہ سولہ سو cc تک کی گاڑیاں بھی مزے سے CNG پر دوڑ رہی ہیں
ابھی کی ہی بات ہے کہ ایک CNG پمپ پر راقم نے ان گنہگار آنکھوں سے ایک پراڈو کو CNG بھرواتے ہوۓ دیکھا. اگر آپکی گاڑی میں بھی CNG لگی ہوئی ہے تو آپ نے بھی یقیناً ہونڈا سوک اور کرولا جیسی گاڑیوں کو CNG کے لئے لائن میں لگا دیکھا ہو گا.
CNG کی صنعت کو بند کرنے سے جو لوگ بیروزگار ہوں گے انکا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے حکومت CNG پمپ کے ملازمین کا ڈیٹا جمع کر کے ان صنعتوں کے مالکان کے لئے ان ملازمین کے لئے اپنی صنعتوں میں نوکریوں کا بندوبست کروا سکتی ہے جو CNG کے بند ہونے سے براہ راست مستفید ہوں گے.
پمپ مالکان کے لئے بھی ایسے متبادل کاروبار نکالے جا سکتے ہیں جن میں حکومت انکی مدد کرے گی. لیکن اس سب کے لئے نیت کی ضرورت ہے کیوں کہ کہنے کو یہ ایک معمولی بات ہے لیکن اگر عوام میں اس شعور کو اجاگر کر دیا جائے کہ وہ اس عمل سے ملکی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں اور CNG کو بند کرنے سے پہلے سوچ بچار سے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس میں نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو تو اس تخریب میں سے تعمیر برآمد کی جا سکتی ہے.
حکومت اگر CNG بند کر دے اور پٹرول جو آجکل 100 روپے لیٹر کے لگ بھگ ہے کی قیمت کو 75 یا اسی روپے کے لگ بھگ لے آئے تو اس میں عوام کی جیب پر بھی بوجھ کم پڑے گا اور ملک کی دوسری صنعتوں کے لئے گیس بھی مل جائے گی ساتھ ساتھ عوام کو سردیوں میں گھروں میں کم سے کم گیس لوڈ شیدڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا.
ہمارے لوگوں کو ایک چیز اور بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کیفیت شعاری سے CNG کے بند ہونے کے باوجود بھی آپکی روزمرہ کی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ گاڑیوں میں گیس ڈلوانے کے لئے جس اذیت ناک عمل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے انہیں چھٹکارہ مل جائے گا.
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو گیس ایک خشک ایندھن ہے جو کہ گاڑیوں کے انجن پر برا اثر ڈالتا ہے جس سے گاڑی کی دیکھ بھال کا خرچہ بڑھتا ہے اس کو بھی خاطر خواہ کم کیا جا سکتا ہے.
ہمیں CNG کے بارے میں یہ اقدامات ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے مکمل ہونے سے پہلے اٹھانے ہوں گے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک قیمتی ایندھن اسی طرح گاڑیوں کو چلانے کے کام آتا رہے اور صنعتوں کا پہیہ روک جائے. یہ درست ہے کہ حکومت کو آئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا لیکن اگر ہمیں پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو کام بھی جنگی بنیادوں پر کرنا ہوں گے.
علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں