• KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جنید جمشید 'چاول' کے کاروبار سے بھی وابستہ ہوگئے

شائع August 1, 2016
جزاء فوڈز کے ڈائریکٹر جنید جمشید —فوٹو / آن لائن
جزاء فوڈز کے ڈائریکٹر جنید جمشید —فوٹو / آن لائن

کراچی: سابق گلوکار اور دور حاضر کے معروف نعت خواں جنید جمشید نے ملبوسات کے بعد عطریات کا کاروبار شروع کیا اور اب وہ چاول کی فروخت کے کاروبار سے بھی وابستہ ہوگئے ہیں۔

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق عالمی سطح پر پاکستانی چاول کی بہترین مانگ ہونے کے باوجود پاکستان چاولوں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں 13 ہویں نمبر پر ہے حالانکہ مارکیٹ میں موجود پاکستانی چاولوں کا حجم 50 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

چاول کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ کم ہونے کی اہم وجہ معیاری چاول کی عدم دستیابی ہے اور اسی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے جنید جمشید نے اس میدان میں قدم رکھا۔

جنید جمشید نے نومبر 2015 میں 'جزاء فوڈز' کے نام سے کمپنی قائم کی تھی جس نے رواں برس مارچ میں 'جزاء رائس' کے نام سے اعلیٰ میعار کے چاولوں کی نئی رینج متعارف کرائی ہے۔

قومی ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چاول کی پیداوار کا حجم 69 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 40 سے 45 فیصد مقامی سطح پر استعمال ہوتا ہے جبکہ بقیہ برآمد کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں صوبہ پنجاب میں باسمتی اور سیلا چاول بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ سندھ میں ایری اور شمالی علاقوں میں بھورے چاول کی پیداوار ہوتی ہے۔

جزاء فوڈز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی جبار کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والے مجموعی چاول میں کھلے چاولوں کا حصہ 96 فیصد ہے اور محض چند کمپنیاں ہیں جو اپنے نام سے چاول ماکیٹ میں لاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چاول کا کاروبار کرنے والی بڑی کمپنیوں کی زیادہ توجہ برآمد پر ہوتی ہے کیوں کہ وہاں منافع زیادہ ہوتا ہے اور مقامی سطح پر لوگوں کو معیاری چاول فراہم کرنے والی کمپنی کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔

جزاء فوڈز کے ڈائریکٹر جنید جمشید نے بتایا کہ حقیقی چیلنج اعلیٰ میعار کے چاول کو عوام تک رعایتی قیمتوں میں پہنچانا ہے۔

جنید جمشید کا کہنا ہے کہ ہمارے چاولوں کا معیار انتہائی اعلیٰ ہوگا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ عوام کی قوت خرید میں بھی ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چاول کا کاروبار شروع کرنے کا خیال انہیں ہندوستانی برانڈ 'تلدا' سے آیا جو عالمی مارکیٹ میں ایک بڑے برانڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور معیار میں اعلیٰ ہونے کے باوجود عوام کی قوت خرید میں ہے۔

جزاء فوڈز کی جانب سے متعارف کرائے گئے برانڈز میں جزاء ایلیٹ اسٹیم رائس (فی کلو 199 روپے، 5 کلو 985 روپے)، جزاء پریمیم باسمتی( فی کلو 170، پانچ کلو 840 روپے)، سیلا گولڈ رائس(فی کلو 160، پانچ کلو 790)، باسمتی چاول (فی کلو 140، پانچ کلو 690 روپے) اور اکانومی رائس(فی کلو 110، 5 کلو 540 روپے) شامل ہیں۔

جنید جمشید کا دعویٰ ہے کہ ایک بار اگر کسی نے جزاء چاول کھالیا تو اسے کسی اور چاول میں مزہ ہی نہیں آئے گا۔

جزاء چاولوں کی لوگوں تک رسائی کو مزید آسان بنانے کیلئے کراچی میں مفت ہوم ڈلیوری کی سہولت بھی فراہم کی جارہی ہے اور صارفین اپنے آرڈرز www.jazaafoods.com پر بک کراسکتے ہیں۔

جزاء فوڈز اب چاولوں کو بیرون ملک برآمد کرنے کی بھی منصوبہ بندی کررہا ہے جہاں اسے اعلیٰ میعار اور سخت پیکجنگ قوانین کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ مضمون ڈان کے ایڈورٹائزنگ میگزین ارورا میں جولائی تا اگست کے شمارے میں شائع ہوا


تبصرے (1) بند ہیں

حسن اکبر Aug 02, 2016 12:26pm
اچھا ہے ۔ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو زیادہ سے زیادہ کاروبار کی طرف آنا چاہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہم زرعی اجناس کی بہتر مارکیٹنگ کرکے بہتر ین زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 16 دسمبر 2024
کارٹون : 15 دسمبر 2024