'پھولوں کا گلدستہ'، 'چکلہ داری' اور دیگر گزارشات
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات، بشمول جسارت، املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔
ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ بھی اس بگاڑ میں اضافہ کررہے ہیں اور بڑے دھڑلے سے غلط تلفظ کو فروغ دے رہے ہیں۔ خاص طور پر کئی الفاظ کو ’’زیر و زبر‘‘ کر دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک بہت سینیئر صحافی، جو بہت عمدہ اردو لکھتے ہیں اور ہم نے اُن سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ ایک ٹی وی پروگرام میں ’’ممالک‘‘ کے لام پر زبر لگا رہے تھے، یعنی ’’ممالَک‘‘۔ اگر وہ لام کو زیر کر لیتے تو کچھ حرج نہیں تھا۔
ایسے اور کئی الفاظ ہیں جن میں زبر کی جگہ زیر اور زیر کی جگہ زبر لگایا جا رہا ہے۔ مثلاً عِندیہ کو عَندیہ، منصِف کو منصَف وغیرہ۔
ہمارے وزیرِ اعظم اور دیگر وزراء تو چوں کہ حاکم ہیں اس لیے تلفظ سے بھی مبّرا ہیں، لیکن وہ جو صحافی اور دانشور ہیں انہیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کا تلفظ بگاڑنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایک بار پھر یہ وضاحت کر دیں کہ غلط تلفظ کی ادائیگی کسی ایک صوبے یا اُن تک محدود نہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں۔
کتنے ہی پشتو، پنجابی بولنے والے ایسے ہیں جن کا تلفظ اردو بولنے والوں سے بہتر ہے اور بڑی نفیس نثر لکھتے ہیں۔ فیض احمد فیض، منیر نیازی، قتیل شفائی، احمد فراز، ابنِ انشاء وغیرہ نہ صرف یہ کہ اردو کے باکمال شاعر تھے، بلکہ تلفظ بھی بے خطا تھا۔
پڑھیے: اردو املا کا مسئلہ
لاہور میں مقیم اور ہارون آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی رؤف طاہر کا تلفظ قابلِ رشک ہے۔ دوسری طرف وہ جن کی مادری زبان اردو ہے، ان کا تلفظ قابلِ رحم ہے۔
پٹھانوں میں امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد (مرحوم) نہ صرف سلیس اردو بولتے تھے بلکہ عربی اور فارسی پر بھی عبور تھا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں شکوہ کیا تھا کہ آج کل اردو بگاڑی جا رہی ہے۔ سید مودودیؒ کی نثر بطور سند پیش کی جاتی ہے مگر ان کے متبعین میں کئی ایسے ہیں جنہوں نے سید مودودیؒ کی نثر سے کچھ نہیں سیکھا، نہ تلفظ نہ املا۔
گزشتہ دنوں جسارت میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں رفاہی کی جگہ رفاعی تھا۔ ایک اور اشتہار میں ’’الحمداللہ‘‘ تھا۔ قارئین شکوہ کرتے ہیں کہ یہ غلطی کیوں؟ لیکن ادارتی عملے کا اشتہارات پر بس نہیں چلتا۔
ہمیں تو افسوس اس پر ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہم کار اور ساتھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ علاء الدین، بہاء الدین کے بارے میں کئی بار لکھا جا چکا ہے کہ اس میں واؤ نہیں آتا۔ یعنی علاو الدین اور بہاو الدین نہیں ہے۔
منگل 17 مئی کے اخبار میں اسٹاف رپورٹر نے ایک بیان میں ’’منڈی بہاؤ الدین‘‘ لکھا ہے۔ سرخی میں تو تصحیح ہوگئی لیکن متن میں یوں ہی چھپا ہے۔ ایک ادبی تنظیم کی خبر میں ’’پھولوں کا گلدستہ‘‘ موجود ہے۔ سب ایڈیٹر نے اس کی تصحیح کی ضرورت نہیں سمجھی کہ خود اس کو گلدستہ اور پھولوں کا گلدستہ میں فرق نہیں معلوم۔ ’’بیرونِ ممالک‘‘ بھی جسارت ہی میں شائع ہوا ہے۔
ہم کوئی ماہرِ لسانیات نہیں ہیں۔ خود ہمارا حال یہ ہے کہ کسی اہلِ علم سے سن کر یا لغت دیکھ کر تلفظ درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا مشہور مصرع ہے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
کنجشک کا تلفظ تو خیر مشکل ہی ہے لیکن ہم فرومایہ کو زبر کرتے رہے یعنی ’ف‘ کے اوپر زبر لگا کر پڑھتے تھے۔
معلوم ہوا کہ شاہیں سے لڑنے کا خواہ کچھ انجام ہو، لیکن فرومایہ میں ’ف‘ کے نیچے زیر ہے۔ اب یہ تو قارئین کو معلوم ہی ہوگا کہ علامہ اقبالؒ گھروں میں رہنے والی چھوٹی سی چڑیا کو شاہین سے لڑا رہے تھے۔
مزید پڑھیے: میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال
احتیاطاً کنجشک کا تلفظ بھی بتا دیں جو خود ہم نے بڑی مشکل سے سیکھا ہے۔ یہ ہے کُن + جِشْک۔ فِرو کہتے ہیں زیرِ حکم، ماتحت، سفلہ، کم رتبہ، مسکین وغیرہ کو۔ اس سے فِرومایہ کے علاوہ فِروتن، فِروگزاشت (کوتاہی، کمی، خطا، بھول، بے پروائی، غفلت، درگزر، چشم پوشی) وغیرہ کئی تراکیب ہیں۔ فِرومایہ کا مطلب ہے کمینہ، کم ظرف، حقیر وغیرہ۔ اب علامہ اقبال کنجشک یا چڑیا کو کمینی تو کہنے سے رہے۔
ایک ترکیب فِرو کرنا بھی ہے، جس کا مطلب ہے دبانا، بٹھانا، بجھانا، کم کرنا جس کی ایک جھلک گزشتہ پیر کو قومی اسمبلی میں بھی نظر آئی۔ کس کو دبایا، کس کو بجھایا، یہ قارئین خود طے کرلیں۔ اور ہاں! فِروکش بھی تو ہے، یعنی اترنے والا، قیام کرنے والا۔
گزشتہ دنوں ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ پڑھ رہے تھے تو ایک جملہ نظر سے گزرا جس میں کسی کو منصب چکلہ داری دینے کی بات کی گئی ہے۔ چکلہ (صحیح چکلا) کا یہ استعمال نیا تھا کہ یہ بھی کوئی منصب ہے۔
'چکلا' کا عام استعمال یا تو 'چوڑا چکلا' ہے یا روٹی بیلنے کا پٹڑا چکلا کہلاتا ہے۔ لغت کے مطابق یہ ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ملک کا ایک حصہ جس میں کئی پرگنے ہوں، علاقہ، صوبہ، جاگیر یا شہر کا وہ حصہ جہاں کسبیاں رہیں۔ علاوہ ازیں گول، مدور، چوڑا، عریض، گول اور چپٹا پتھر یا لکڑی کا ٹکڑا، دال دلنے کی چکی۔
ہمارے ساتھی مظفر اعجاز نے توجہ دلائی ہے کہ ممکن ہے ’’چک‘‘ چکلا کی تصغیر ہو۔ چک پنجاب میں مستعمل ہے یعنی کسی علاقے کی حد بندی۔ چکلا بندی کا مطلب ہے حد بندی، صوبوں کو چکلوں میں تقسیم کرنا۔
تذکرہ غوثیہ دلچسپ حکایتوں کی کتاب ہے جو 1880ء سے پہلے لکھی گئی چنانچہ اس میں اردو کے اور کئی ایسے الفاظ ہیں جو اب متروک ہوچکے ہیں۔ ان کا ذکر پھر کبھی سہی، اس گزارش کے ساتھ کہ تذکرہ غوثیہ کو دینی کتاب سمجھ کر نہ پڑھا جائے۔
جانیے: 6 سادہ طریقوں سے اردو کے فروغ میں حصہ لیں
ایک انجان قاری فیروز ہاشمی نے کسی انجان مقام سے خط بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ بہت خوب اور بہت معلوماتی ہے۔ کئی الفاظ میں مجھے بھی الجھن ہوتی ہے۔ لیکن اب مسلسل یہ کالم شائع ہونے سے فائدہ ہورہا ہے کہ خودبخود جواب مل رہا ہے۔ نون غنہ اور انگریزی کے سائلنٹ حروف کے بارے میں کچھ اشکال ہیں۔ امید ہے کہ اہلِ زبان اس بارے میں رہنمائی فرمائیں گے۔ مثلاً اکثر لوگ ’’کیونکہ‘‘ اس طرح لکھتے ہیں۔ درمیان میں نون غنہ کے لیے نون ہی کا استعمال ہو رہا ہے جو بعض دفعہ کم اردو جاننے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ کیا ہم نون غنہ کے لیے رشید حسن خاں کے مشورے پر عمل کرسکتے ہیں؟ جیسے شنکر، کنکر، بانگ، دانگ وغیرہ۔ سرائیکی میں بھی شاید اس طرح کا طریقہ رائج ہے۔ سرائیکی نستعلیق میں یہ لکھا جاتا ہے۔
"انگریزی کے سائلنٹ حروف کو اردو میں بھی لکھا جائے اور انگریزی کی طرح پڑھا نہ جائے جیسے فرسٹ (First) وغیرہ۔
"عربی کے قاعدے کے مطابق بہت سارے الفاظ جو اردو میں استعمال کیے جاتے ہیں انہیں لکھا جائے لیکن پڑھا نہ جائے، یعنی اصل عربی املا ہی کو جاری رکھا جائے تاکہ ہمارے علم میں یہ رہے کہ یہ عربی زبان سے اردو میں رائج ہوا ہے۔ ورنہ اگر ہم اعلیٰ کو اعلا کریں گے تو بہت ساری دشواریاں آئیں گی۔ خاص طور سے سرچ کرنے میں دقت آئے گی۔
"اب زیادہ تر ضرورتوں کے لیے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال ہورہا ہے۔ اگر ہم مختلف قسم کے املا لکھیں گے تو سرچ کرنے میں دقت پیش آئے گی۔ ابھی کمپیوٹر میں اردو زبان کے سلسلے میں زیادہ کام نہیں ہو پایا ہے کہ انگریزی کی طرح دوسرے متبادل الفاظ کمپیوٹر خود پیش کر دے۔‘‘
بھائی فیروز ہاشمی، توجہ کا شکریہ۔ آپ کی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی۔ توقع ہے کہ مزید وضاحت کریں گے۔ آپ نے اہلِ زبان سے رہنمائی چاہی ہے۔ ہم بھی یہ معاملہ انہی پر چھوڑتے ہیں۔ فی الوقت تو رسید حاضر ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں