ساہیوال : نجی اسکول نے طلبہ کو پنجابی بولنے سے روک دیا
ساہیوال: پنجاب کے ایک نجی اسکول کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں پنجابی زبان کی ترویج کرنے والے افراد ، بالخصوص ادبی طبقے نے مسترد کردیا، اس نوٹیفکیشن میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی زبان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا گیا، جس پر لوگوں کی بڑی تعداد نے غم وغصے کا اظہار کیا۔
ساہیوال میں فرید ٹاؤن میں واقع نجی اسکول کے لڑکوں کے کیمپس کی جانب سے بھیجے جانے والے 10 نکاتی نوٹیفکیشن کو اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے بھی ناپسند کیا جبکہ نوٹس فوری طور پر واپس لینے کے ساتھ معافی کا بھی مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ نوٹیفکیشن میں پنجابی کو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی نامناسب زبان قرار دیا گیا، نوٹیفکیشن کے پانچویں نکتے کے مطابق اسکول کے اندر، باہر، صبح اسکول کے اوقات کے دوران اور اس کے بعد گھر جاکر بھی غیر تہذیب یافتہ زبان بولنے کی اجازت نہیں ہوگی، نوٹس کے اس نکتے میں مزید کہا گیا کہ نامناسب زبان میں طعنے، گالیاں، پنجابی اورنفرت انگیز گفتگو شامل ہے۔
ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ یہ نوٹس پنجاب میں موجود اسکول کی تمام شاخوں میں تقسیم کیا گیا جبکہ والدین کو اس پر سائن کرکے اسکول آفس واپس بھیجنے کی ہدایت کی گئی۔
متعلقہ کیمپس کے پرنسپل جمیل احمد سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں اس نوٹیفکیشن کے لیے تحریر اسکول کے لاہور میں واقع ہیڈ آفس کی جانب سے فراہم کی گئی تھی، تاہم انہوں نے پنجابی زبان کے لیے توہین آمیز الفاظ کے استعمال پر کوئی بھی رائے دینے سے انکار کردیا۔
پنجابی زبان کے اسکالر اور کالم نگار مشتاق صوفی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر یہ نوٹس دیکھا، وہ اسے پاکستان ، ہندوستانی پنجاب اور دنیا بھر میں پنجابی بولنے والے لاکھوں افراد کی تذلیل سمجھتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے اوریئنٹل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر سعید بھٹہ نے اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بابا فرید (پاکپتن) اور خواجہ فرید (کوٹ مٹھن) سے شروع ہونے والی پنجابی زبان کی تاریخ بہت پرانی ہے، یہ نوٹس ایک ’مخصوص طبقے‘ کی طرف سے پنجابی ورثے کی تذلیل اور نظراندازی ہے۔
ماہر تعلیم راؤ شفیق کے مطابق لوگوں کا مادری زبان بولنا ایک تسلیم شدہ آئینی حق ہے، 1973 کا آئین فیڈریشن یونٹس کو مادری زبان کی بنیادی تعلیم دینے کی اجازت دیتا ہے، جواب طلب بات یہ ہے کہ کیسے ایک اسکول والدین کو یہ ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ پنجابی زبان نہ بولیں؟
انہی خیالات کی تصدیق متعلقہ اسکول میں پڑھنے والے پانچویں جماعت کے طالب علم کے والد نے کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن کے الفاظ پنجابی زبان کی بے عزتی کرتے ہیں، اس زبان کو صدیوں تک صوفی بزرگ اور اولیا استعمال کرتے رہے، اسکول کے اقدام پر افسوس کرتے ہوئے والدین کا مزید کہنا تھا کہ اس نوٹس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بچے اپنے دادا نانا سے بات نہ کریں کیونکہ ان کی زبان پنجابی ہے، یہ اقدام بچوں کو پنجاب کے ثقافی ورثے اور تہذیبی شناخت سے محروم رکھنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
لاہور کے معروف ناشر امجد سلیم کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا تحفظ اور فروغ آئینی حق ہے جبکہ اسے کوئی بھی اسکول تبدیل نہیں کرسکتا۔
مشتاق عادل کاٹھیا کی صدارت میں ہونے والے مہکائیں پنجاب ادبی بورڈ کے اجلاس میں اس نوٹیفکیشن میں استعمال کی گئی زبان کے خلاف قرارداد پاس کی گئی، اجلاس کے شرکا نے نجی اسکول سے اس نوٹس کو واپس لینے اور انتظامیہ سے وضاحت کا بھی مطالبہ کیا.
یہ رپورٹ 14 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں