• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

لالچ یا مایوسی؟؟

شائع July 7, 2013

Wheat
.-- فائل فوٹو

"صدر زرداری ایک بڑا چالاک آدمی ہے،" بوڑھے کسان نے کہا- "وہ ایک ہاتھ سے آپ کو جو کچھ دیتا ہے دوسرے ہاتھ سے اس کا دوگنا لے لیتا ہے"- میں نے ایک ہفتہ ملتان میں، آم کے کاشت کاروں، آڑھتیوں سے ملتے ہوۓ اور کھاد اور کپاس کے بیوپاریوں اور زراعت سے وابستہ دوسرے لوگوں سے بات چیت کرتے ہوے گزارا- اور میں جہاں کہیں بھی گیا مجھے ایک ہی کہانی سننے کو ملی- وہ کچھ اس طرح سے ہے-

سنہ 2009 میں زراعت اپنے عروج پر تھی- گندم کی امدای قیمتوں میں اضافے کے اعلان سے کاشتکاروں کے ہاتھ میں کافی تگڑی رقم آنے لگی تھی، اس کا بوجھ شہری صارف اٹھا رہے تھے-

اسی دوران کپاس کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ ہوا تھا- اسکی وجہ، چین اور انڈیا میں کپاس کی خراب پیداوار تھی- کپاس کی قیمت تین گنا ہو گئی، جس سے ان کاشتکاروں کو حوصلہ ملا جو گندم کی کٹائی کے فور اً بعد کپاس اگانا شروع کر دیتے ہیں-

دونوں بڑی فصلوں، کپاس اور گندم سے ہونے والی زیادہ آمدنی نے کسانوں کو بڑھاوا دیا، اور زراعت کی صنعت میں اس حد تک تیزی آگئی کہ شہری برادری کو اس پر رشک آنے لگا-

گورنمنٹ نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے- انہوں نے زراعت کے شعبے میں ہونے والی اس ترقی کو اپنے اقتصادی نظریے کے سنگ بنیاد بنا کر پیش کیا، ایک ایسا تصور جس میں پاکستانی اقتصادی پالیسیوں میں شہری تعصب کو دور کرنے کی کوشش کی گئی-

"قیمتوں میں بےپناہ اضافے کی وجہ سے، زراعت کا شعبہ اگلے مالی سال میں بھی یقیناً اقتصادی پیداوار کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا،" 2011 میں اکنامک سروے نے لکھا تھا-

"قیمتوں میں بےپناہ تحریک" کوئی مذاق نہیں تھا- "بڑی فصلوں کی قیمتوں میں غیر معتدل اضافے کے نتیجے میں سنہ 11- 2010 تک 342 بلین روپے کی اضافی رقم، دیہی علاقوں میں منتقل ہو گئی ہے"- اگلے سال کی اکنامک سروے میں لکھا گیا-

پھر اچانک ہوا کا رخ بدل گیا- سب سے پہلے تو سیلاب آۓ- پھرحکومت کے بڑھتے ہوے مالیاتی دباؤ، اور پھر کھاد کی صنعت کو قدرتی گیس کی فراہمی میں کمی، یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ آئیں- اور کپاس کی قیمتیں واپس وہیں پنہنچ گئیں جہاں سے شروع ہوئی تھیں-

بڑھتے ہوے مالیاتی خسارے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے، ریونیو کے لئے کئے گۓ چھوٹا سا اقدام کیا گیا، اور تمام زرعی مصنوعات پر 16 فیصد جی ایس ٹی لاگو ہو گیا، جس کی وجہ سے کیڑے مار دواؤں اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا-

اس کے بعد کھاد کی صنعت کے لئے مختص، گیس کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی اور اس کے ساتھ، بڑی مقدار میں گیس کی دستیابی میں کٹوتی بھی ہوتی رہی-

مسلسل فراہمی کی امید پر ایک مخصوص صنعت کار نے بھاری قرضہ لے لیا، پھر اسے ان قرضوں کی لاگت یوریا کھاد کی قیمت میں شامل کرنا پڑیں- اس سے دوسرے صنعتکاروں کو ترغیب ہوئی اور انہوں نے بھی اسکی دیکھا دیکھی یہی کرنا شروع کر دیا- حالانکہ ان کے پاس قیمتوں میں کمی کے لئے کوئی نیا پلانٹ نہ تھا، انہوں نے کوئی نیا قرضہ لیا تھا-

سنہ 2008 میں ایک بوری یوریا کھاد کی قیمت 682 روپے تھی- سنہ 2012 تک وہ 1700 تک پہنچ گئی- اسکو ایک اور زاویہ سے دیکھتے ہیں- سال 2008 میں پاکستان بھر کے کاشتکاروں نے یوریا کھاد پر 75 بلین روپے خرچ کے- سال 2012 میں یہ رقم 194 بلین روپے تک چلی گئی-

کیڑے مار دوائیں اور ٹیوب ویل بھی تکلیف دہ حد تک مہنگے ہو گۓ- کاشتکار، ان کے سستے متبادل کے لئے غیر رسمی گھریلو صنعتی مصنوعات کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو گۓ- کسانوں کی بڑی تعداد گھروں میں بنی کھاد اور دوسرے کیمکل جیسے زنک استعمال کر رہی ہے کیوں کہ وہ کارخانوں کی کھاد کے متحمل نہیں ہو سکتے-

صنعتی ذرایع کا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی مسلسل تین سال تک یوریا کے استعمال میں کمی نہیں دیکھی- زرعی مارکیٹ کے ڈیلروں نے بھی اس بات کی توثیق کی-

اور اس کے دوران، ان متبادل کی گھریلو صنعت، اپنے عروج پر ہے- زرعی کیمکل، کھاد اور کیڑے مار دوائیں، جو ڈرموں میں بنتی ہیں اور سوفٹ ڈرنک کی ڈیڑھ لیٹر بوتلوں میں بکتی ہیں، انکی پیداوار میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے- ان میں سے ساری ہی بیکار نہیں ہوتیں- کچھ واقعی کام کرتی ہیں لیکن انکے زمین اور فصلوں پر کیا اثرات مراتب ہوتے ہیں یہ جاننا ابھی باقی ہے-

اس سے کہیں زیادہ پرفریب اثرات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں-

ویہاڑی چوک سے جی ٹی روڈ تک، اور جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ، زرعی زمینوں پر بڑے بڑے تعمیراتی پروجیکٹ کھڑے ہو رہے ہیں- 40 سال پرانے آم کے باغات کو کاٹ کر انکی جگہ اپر مڈل کلاس کے لئے 'ڈریم ورلڈ' اور ' پیراڈیز' جیسے ناموں کی کالونیان بنائی جا رہی ہیں-

وہ کاشتکار جن کی زمینیں مین روڈ اور شاہراہ سے متصل ہیں، وہ خوش قسمت ہیں-

ذرا اور اندر جائیں، مثال کے طور پر، شجاع آباد جانے والی روڈ پر- آپ کو درجنوں اینٹوں کی بھٹیاں، کالا کالا دھواں اڑاتی نظر آئیں گی- وہ کسان، جو اپنی زمین بیچ کر مناسب رقم حاصل نہیں کر سکتے، وہ اپنی مٹی بیچ رہے ہیں- چناب بیسن کی اعلیٰ زرعی مٹی سے بہترین اینٹیں تیار ہوتی ہیں-

ہم ایسی ہی ایک بھٹی پر رکے اور جب تک ہمارا کیمرہ مین وہاں کی فلم بناتا رہا، میں نے ایک مزدور کو اپنے ساتھ باتوں میں مصروف کر لیا- میں نے پوچھا، "تم لوگ مٹی کہاں سے خریدتے ہو؟"

"علاقے کے کسانوں سے"، اس نے اپنا ہاتھ چاروں طرف موجود کھیتوں کی طرف گھماتے ہوے کہا- "تو تم لوگ کیسے خریدتے ہو، کیا تم خود وہاں جاتے ہو یا کسان مٹی لے کر تمھارے پاس اتا ہے؟" میں نے پوچھا-

"ہم وہاں جاتے ہیں، زمین کھودتے ہیں، اور اس وقت تک کھودتے رہتے ہیں جب تک چکنی مٹی نہ باہر آجاۓ، پھر ہم رک جاتے ہیں اور کسان کو رقم ادا کر دیتے ہیں"-

تو اس کے بعد کھیت کا کیا بنتا ہے؟ "ظاہر سی بات ہے، وہ تباہ ہو جاتا ہے- کسی کام کا نہیں رہتا- عام طور پر، ایک کریٹر بچ جاتا ہے، بعض اوقات تقریباً 100 فیٹ چوڑا، وہ اسے کچرا ٹھکانے لگانے والے ٹھیکیدار کو بیچ دیتے ہیں"-

"ایک کسان ایسا کاروبار آخر کیوں کرے گا، میں نے آخر میں پوچھا- جواب فور اً ہی آیا:

"لالچ یا مایوسی-"

اور اس طرح کہانی کا اختتام ہوتا ہے- سالوں کی زرعی پیداوار، دیہاتی معیشت میں غیر واضح رقوم کی منتقلی، کاشتکاروں کو بڑھاوا اور ان سب کے پیچھے دوسرے عوامل کم اور 'قیمتوں میں بےپناہ تحریک ' زیادہ کارفرما تھی- ترقی کی کہانی نے پیداوار کو تنہا چھوڑ دیا، کاشتکاری ہمیشہ کی طرح ناکارہ رہی اور کاشتکار آخرکار اینٹوں کی بھٹی کے مالکان اور املاک بنانے والوں کے شکنجے میں جکڑ گۓ-

اس پورے عمل کے ذمہ دار شاید صدر زرداری نہ ہوں، لیکن جیسا کہ انکی حکومت نے خوشحال سالوں کی گدی پر بیٹھ کر اس بات کا دعویٰ کیا کہ یہ انکا اقتصادی کارنامہ ہے، اسی طرح ناکامی کے سال بھی انہی کے کھاتے میں جائیں گے، اور لوگ بہت عرصے تک یہی کہتے رہے ہیں گے کہ اس شخص نے ایک ہاتھ سے دیا اور دونوں ہاتھوں سے لوٹا-

مصنف کراچی کے صحافی ہیں، کاروبار اور معاشیات ان کے مضامین ہیں-


ترجمہ: ناہید اسرار

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025