• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

انٹرویو میں کامیاب کیسے ہوں؟

شائع December 8, 2017

اگر آپ بھی بہتر شعبے اور نوکری حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ڈان بلاگز آپ کے لیے ’بلاگ سیریز‘ شروع کررہا ہے، جس میں تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سیریز کا چوتھا بلاگ ہے۔ گزشتہ بلاگز یہاں پڑھیے۔


کسی بھی ملازمت سے قبل انٹرویو سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے جس میں ایک اسامی کا اُمیدوار کمپنی یا ادارے کے نمائندوں کے سامنے موجود ہوتا ہے، یہ موقع اُس کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ اُس موقع کا صحیح استعمال کرکے وہ اپنے آپ کو نوکری کے لیے اہل ثابت کرسکتا ہے۔

اِس بلاگ میں ہم یہ دیکھیں گے کہ کس طرح انٹرویو کے دوران کسی کمپنی یا ادارے کے ایچ آر (ہیومن ریسورس) کے ذمہ داران کے سامنے ایک اچھا تاثر ڈال کر نوکری ملنے کے مواقعوں کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

کئی اُمیدوار یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ انٹرویو میں بہت اچھی تیاری کرکے گئے تھے مگر انٹرویو میں پوچھے جانے والے سوالات ایسے تھے جن کا جواب اُن سے بروقت نہ بن سکا۔ کچھ اُمیدواران انٹرویو کے موقع پر یک دم پریشانی اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں، بعض لوگ دوران انٹرویو بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر اُس وقت نہیں بول پاتے، جبکہ کئی تو حد ہی کردیتے ہیں اور اپنی موجودہ نوکری کے حوالے سے مشکلات کا وہ رونا روتے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

اِس کارگزاری کے بعد جب اُن کو انٹرویو کرنے والی کمپنی کی جانب سے جوابی بلاوا نہیں آتا تو اُس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں، آپ نے انٹرویو میں کارکردگی ہی ایسی دکھائی ہے کہ اُس کے بعد کوئی توقع رکھنا ہی فضول ہے، مگر اچھی خبر یہ ہے مندرجہ ذیل چند نہایت سادی سی ہدایات پر عمل کرکے آپ یہ نتائج اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔

خود اعتمادی

جس طرح زندگی کے ہر موقع پر خود اعتمادی اہمیت رکھتی ہے ٹھیک اُسی طرح انٹرویو کے دوران بھی خود اعتمادی اولین شرط ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ اعتماد پیدا کیسے ہوگا؟

خود اعتمادی، تین عوامل سے آتی ہے۔ سب سے پہلا عمل یہ کہ آپ کے مقصد پر آپ کا یقین ہو۔ یعنی جب آپ کا مقصد آپ کے ذہن میں واضح ہوگا تو یقیناً آپ کے لیے اُس پر بات کرنا اور کسی دوسرے کو قائل کرنا کافی آسان ہوجائے گا، آپ اپنی بات کسی کے سامنے بھی بیان کرتے ہوئے زیادہ پُر اعتماد ہوں گے، لہٰذا ایک امیدوار کو یہ واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی بات دوسروں کے سامنے بیان کرسکے۔ دوسرا عمل ہے اپنے مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ رکھنا اور تیسرا یہ کہ روایتی انٹرویو سوالات کے حوالے سے آپ پوری طرح خود کو تیار رکھیں۔

اپنے باڈی پوسچر (جسمانی کیفیت یا چال ڈھال) پر دھیان دیں

آپ کی شخصیت کا 70 فیصد اظہار آپ کی باڈی لینگویج ہی کردیتی ہے۔ جس وقت آپ انٹرویو دینے کے لیے کمرے میں داخل ہوتے ہیں، اُس لمحے آپ کے چہرے کے تاثرات اور آپ کے منہ سے نکلے چند ابتدائی الفاظ آپ کا ایک تاثر قائم کردیتے ہیں، لہٰذا اپنا پہلا تاثر اچھا ڈالیں۔ جب آپ پُراعتماد طریقے سے اندر داخل ہوں گے، مسکراتے ہوئے اُن کی جانب دیکھیں گے اور ہاتھ بڑھا کر اُن سے ہاتھ ملائیں گے تو یقیناً اُن کی نظر میں آپ کا پہلا تاثر اچھا جائے گا جوکہ آخر تک قائم رہے گا۔

واضح رہے کہ بلاوجہ کی گرم جوشی کی بھی ضرورت نہیں۔ بعض لوگ ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے۔ سلام ضرور کریں مگر مصافحہ اُسی وقت کریں جب وہ خود ہاتھ آگے بڑھائیں۔ کُرسی پر بیٹھنے میں آپ کا ڈھیلا انداز، بالوں سے کھیلنا، ہاتھ پاؤں ہلاکر اپنی کنفیوژن دکھلانا، ٹیبل بجانا، کچھ چبانا، نظریں نہ ملانا، یہ وہ چند خرابیاں ہیں جو آپ کو مسترد کروا سکتی ہیں۔ اپنے باڈی پوسچر کو آپ کیسے بہتر بنا کر اپنی شخصیت میں ایک چارم لاسکتے ہیں، اِس حوالے سے تفصیلی بات کسی دوسرے بلاگ میں کریں گے۔

مثبت سوچ رکھیں

دوسری اور اہم بات یہ کہ اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں. ہم جیسا سوچتے ہیں، ہمارے ساتھ اکثر ویسا ہی ہوجاتا ہے، اِسے ’پاور آف سب کانشس مائنڈ‘ کہتے ہیں یعنی کہ آپ کے لاشعوری ذہن کی طاقت۔ یہ ایک کتاب کا نام ہے جو جوزف مرفی نے لکھی ہے۔ جوزف اپنی اِس کتاب میں اِس موضوع پر بحث کرتے نظر آتے ہیں اور اُنہوں نے مختلف مثالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں یا جو کچھ سوچتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کا لاشعور وہی کچھ حقیقت میں ڈھال کر آپ کے سامنے لے آتا ہے، لہٰذا اِس ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ذہن کی یوں تربیت کریں کہ وہ آنے والے واقعات کے حوالے سے مثبت سوچے۔ اِسی لیے انٹرویو دینے سے قبل آپ کے ذہن میں ایک تصوراتی خاکہ ہونا چاہیے کہ آپ انٹرویو دینے جا رہے ہیں اور انٹرویو میں بہت اچھا پرفارم کرنے کے بعد کامیاب ہوگئے ہیں، یوں یقیناً آپ کے ساتھ اچھا ہی ہوگا۔

اپنی سوچ کو منتشر ہونے سے بچائیں۔ جتنا وقت انٹرویو کے لیے انتظار میں بیٹھیں اُس دوران اپنے ذہن میں انٹرویو کے بارے میں سوچیں، یہ سوچیں کہ آپ سے کیا کیا سوالات پوچھے جاسکتے ہیں اور آپ اُن کا کیا جواب دیں گے۔ اپنے ذہن کو مطمئن رکھیں، اگر گھبراہٹ ہو تو کسی دوسرے اُمیدوار سے بات چیت کریں، آپس میں تعارف کریں، یوں دو فائدے ہوں گے، ایک تو آپ کا ذہن انٹرویو کے حوالے سے کسی منفی بات سے محفوظ رہے گا، دوسرا آپ کے پروفیشنل تعلقات بڑھیں گے۔

لباس

لباس نہ صرف صاف ستھرا اور موجودہ فیشن کے مطابق ہو بلکہ آرام دہ بھی ہونا ضروری ہے۔ بعض دفعہ ہم اچھا نظر آنے کے لیے اِس قدر بے آرام لباس پہن لیتے ہیں کہ انٹرویو کے موقع پر سارا اعتماد اُس بے آرامی کی وجہ سے ختم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لباس کے حوالے سے یہ بات کافی اہم ہے کہ لباس آرام دہ ہو اور آپ اُس میں خود کو نارمل محسوس کریں۔ رنگوں کا انتخاب سمجھداری کے ساتھ کریں، بہت زیادہ شوخ رنگ نہ ہوں، بلکہ سادہ یا پھر ڈارک ہوں، کنٹراسٹ پر بھی دھیان دیں۔

آپ کی ڈریسنگ یہ بتاتی ہے کہ آپ نے اِس ملاقات کے لیے تیاری کی ہے، جس سے انٹرویو لینے والے پر بھی ایک اچھا تاثر جاتا ہے۔ ہر انٹرویو پر تھری پیس سوٹ پہن لینا مناسب نہیں البتہ جس پوسٹ کے لیے آپ اپلائی کر رہے ہیں کم از کم اُس لحاظ سے یا پھر اُس سے ایک درجہ اوپر کا لباس استعمال کریں۔

یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ انٹرویو میں اچھا پہننے کے لیے شاہ خرچی کی ضرورت نہیں، آپ خاص انٹرویو کے لیے ایک لباس سنبھال کر رکھیں اور صرف انٹرویو میں ہی اُس کا استعمال کریں، واضح رہے کہ یہ لباس اوپر دی گئی ٹپس کے مطابق مناسب اور آرام دہ ہو۔

سوالات کی تیاری

ہر انٹرویو میں تمام سوالات پچھلے انٹرویو سے مختلف نہیں پوچھے جاتے بلکہ کچھ سوالات تقریباً ہر انٹرویو میں ایک جیسے ہوتے ہیں، اِن سوالات کو ’روایتی انٹرویو سوالات‘ کہا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ سے آپ اِن تمام روایتی سوالات کی فہرست حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً عام طور پر پہلا سوال کیا جاتا ہے کہ ’اپنے بارے میں بتائیں؟‘ یہاں آپ سے آپ کی پیشہ ورانہ اہلیت اور تجربے کی بابت دریافت کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح ایک اور سوال کہ ’اپنی اسٹرینتھس اور ویکنیسز (صلاحیتوں اور کمزوریوں) کے بارے میں بتائیں؟‘، اور ایسے ہی ایک اور سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’آپ کیوں ملازمت تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں؟‘، اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو کہ روایتی انٹرویو سوالات کہلاتے ہیں جس کے بارے میں ہم آنے والے بلاگز میں تفصیلی بات کریں گے۔

اِس تیاری کا فائدہ یہ ہے کہ جب انٹرویو میں آپ سے یہ سوالات پوچھے جائیں گے تو اُس وقت آپ سوچنے کے بجائے براہِ راست سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے، اور یوں اپنی حاضر جوابی سے انٹرویو پینل پر ایک اچھا تاثر ڈال سکیں گے۔

اردو یا انگریزی کا استعمال

انٹرویو میں اردو کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا انگریزی کا؟ یہ ایک اہم اور ذرا پیچیدہ سا سوال ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ جس زبان میں آپ سے سوال کیا جائے آپ بھی اُسی زبان میں جواب دیں۔ لیکن اگر سوال انگریزی میں کیا جائے اور آپ کی انگریزی اتنی اچھی نہ ہو کہ آپ اُس سوال کا جواب انگریزی میں دے سکیں تو بہتر یہ ہے کہ سوال سمجھنے کے بعد ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جواب دینے کے بجائے اُردو میں ہی جواب دیں، یوں آپ اپنی انگریزی کے حوالے سے اچھا تاثر نہیں بٹھا سکیں گے البتہ آپ اپنی پیشہ ورانہ اہلیت اور تجربے کے حوالے سے اپنا پیغام کافی بہتر انداز میں اُن تک پہنچا سکیں گے۔

ایمانداری ہی بہترین پالیسی ہے

کہتے ہیں کہ جو شخص سچ بولتا ہے اُس کو کوئی بات یاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سچ بولتے ہوئے آپ کے الفاظ میں روانی اور لہجے میں اعتماد ہوگا، جبکہ جھوٹ اور بناوٹ آپ کے اعتماد کو متزلزل کردیں گے، لہٰذا انٹرویو دیتے ہوئے ہمیشہ سچ بات کریں، سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، یاد رکھیں کہ آپ چند ماہ میں ایک بار انٹرویو دیتے ہیں، جبکہ آپ کے سامنے موجود انٹرویو لینے والے کے لیے یہ روز کا کام ہے۔ جب آپ سے کوئی سوال کیا جائے تو آپ اُس کا مختصر اور سیدھا جواب دیں، یہ نہ ہو کہ آپ اپنے لمبے اور اُکتا دینے والے جوابات سے اُس کی نظر میں اپنا غلط تاثر بٹھا دیں۔

آخری مگر بہت ہی اہم بات یہ کہ آپ کو معلوم ہوکہ آپ کے سی وی یا ریزیومے میں کیا لکھا ہوا ہے۔ عام طور پر لوگ کاپی کرنے میں بہت بار ایسی چیزیں بھی لکھ دیتے ہیں جن کے بارے میں اُنہیں خود علم نہیں ہوتا، مثلاً کیریئر آبجیکٹیو جو کہ اکثر افراد کاپی پیسٹ کرتے ہیں جب ایسے افراد سے دوران انٹرویو اُن کے آبجیکٹیو (مقصد) کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ اُس کی وضاحت کریں تو پھر اُن کے پاس یا تو کوئی جواب نہیں ہوتا اور جواب دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ناکافی معلومات کی وجہ سے صحیح جواب نہیں دے پاتے۔

اِسی طرح بعض اُمیدوار اپنی جاب ڈسکرپشن لکھتے ہوئے اِس قدر مشکل الفاظ کا چناؤ کرلیتے ہیں کہ اُس حوالے سے انٹرویو میں جب پوچھا جاتا ہے تو اُن سے کوئی جواب نہیں بن پاتا، اِس لیے اپنے ریزیومے کے حوالے سے آپ کو لفظ بلفظ معلوم ہونا چاہیے کہ اُس میں کیا کیا لکھا ہے اور کس مقصد کے تحت لکھا ہے تاکہ جب آپ سے اِس حوالے سے کوئی سوال کیا جائے تو آپ اُس کا جواب بغیر کسی توقف اور سمجھداری سے دے سکیں۔

سید اویس مختار

اویس انجینئر ہیں جبکہ آپ نے ایم بی اے بھی کیا ہوا ہے۔ 6 سالوں سے مختلف ملٹی نیشنل اور لوکل کمپنیز کے ساتھ کام کررہے ہیں اور ان کو ہیلتھ سیفٹی اور مینیجمنٹ سسٹم کی ٹریننگ اور کنسلٹنسی دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے قلم کے استعمال کو اہم سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے یوٹیوب پر ایک چینل بھی چلا رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

SALMAN Dec 08, 2017 07:38pm
Bohot khob sir css interview ke bary ma Koch be bata De to bary mehrobani hogy. Kyo ke os ma physiological questions pochy jaty ha discuss in detail. Thank you....
SALMAN Dec 08, 2017 07:42pm
Sir boht kob ab Koch css interview ke bary ma Koch bata de kyo ke os ma physiological questions pochy jaty ha thank you discuss in detail plz.

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024