وزراتی کمیٹی کی شوگر سیکٹر میں بڑی اصلاحات کی تجویز
بدھ کے روز ایک وزارتی پینل نے چینی کے شعبے میں بڑی اصلاحات کا مطالبہ کیا، جس میں تجاویز پیش کی گئیں کہ گنے کی قیمتیں بغیر کسی حکومتی کردار کے سکروز کی بنیاد پر مقرر کی جائیں، چینی درآمد کرنے کی آزادی ہو لیکن اضافی پیداوار کی صورت میں برآمد قابو میں ہو اور ملز کی جانب سے کارٹلائزیشن اور گنے کی کرشنگ میں تاخیر پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2019 میں قیمتوں میں زبردست اضافے اور اس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی تحقیقات کے بعد جون 2020 میں وفاقی کابینہ نے وزیر توانائی حماد اظہر کی سربراہی میں شوگر سیکٹر ریفارم کمیٹی (ایس ایس آر سی) تشکیل دی تھی۔
اس بحران نے مرکز اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان اور ان کے دیرینہ دوست جہانگیر خان ترین کی راہیں جدا ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:شوگر اسکینڈل میں ایف آئی اے نے ’سٹے‘ کی تحقیقات شروع کردیں
اصلاحاتی کمیٹی نے متعدد وفاقی اور صوبائی قوانین میں کئی ترامیم کی تجویز پیش کی اور پاکستان کموڈٹیز ایکسچینج کنٹرول (پی میکس) اور سپارکو کے لیے نئے کردار مقرر کیے تاکہ پوری سپلائی چین کو ہموار کیا جا سکے۔
کمیٹی نے کرشنگ میں تاخیر کرنے والی ملز پر جرمانے کو بڑھا کر 50 لاکھ روپے کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال قید اور کارٹیلائزیشن پر 7 کروڑ 50 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی۔
ایس ایس آر سی نے تسلیم کیا کہ وزارت صنعت و پیداوار میں قائم شوگر ایڈوائزری بورڈ نے دیکھا تھا کہ نومبر 2019 میں قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ فورسز کی وجہ سے نہیں تھا اور اس نے صوبوں سے کہا تھا کہ وہ مارکیٹ کے غیر منصفانہ طریقوں کو روکنے کے لیے قیمتوں پر قابو پانے اور منافع خوری روکنے کے لیے قانون نافذ کریں۔
تاہم، بعد میں بورڈ نے محسوس کیا کہ 'چینی کی حقیقی قلت ہے' جس سے قیمتوں پر دباؤ آیا، اس لیے چینی کی برآمد پر پابندی لگا دی لیکن درآمدات کی حمایت کی۔
مزید پڑھیں:نیب نے سندھ میں موجود شوگر ملز کے خلاف تحقیقات کی منظوری دے دی
کمیٹی نے چینی صحت کے لیے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال کے خلاف سخت میڈیا مہم چلانے کی سفارش کی کیونکہ دیکھا گیا کہ چینی کی مجموعی پیداوار کا 30 فیصد گھریلو سطح پر استعمال ہوتا ہے جبکہ باقی 70 فیصد تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کمیٹی کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور قیاس آرائیوں کی بڑی وجہ نامعلوم مقامات پر غیر رجسٹرڈ سپلائی چین کا نتیجہ ہے۔
لہٰذا اس نے تجویز دی کہ چینی کو ایک کولیٹرل مینجمنٹ کمپنی (سی ایم سی) کے زیر انتظام منظور شدہ گوداموں میں جمع کرایا جانا چاہیے جس کے بعد صارفین کی مستعدی سے الیکٹرانک گودام کی رسیدوں کے ذریعے اس کے ٹریڈنگ اور سیٹلمنٹ ریکارڈز کو (پی میکس کے ذریعے برقرار رکھا جائے تاکہ بہتر قیمتیں حٓصل کرنے کے لیے مارکیٹ کے شرکا کو ایک جیسے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔
کمیٹی نے صوبائی حکومتوں کی طرف سے فصلوں کی زوننگ سے متعلق قانون سازی کو ختم کرنے اور اس کا انتخاب کسانوں اور مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے کی سفارش کی۔
یہ بھی پڑھیں: چینی اسکینڈل: ایف آئی اے کے نوٹسز میں جرم نہیں بتایا گیا، جہانگیر ترین کا جواب
تاخیر سے کرشنگ کے معاملے پر کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں ہر سال یکم اکتوبر سے 30 نومبر تک کرشنگ کا کہا گیا ہے جو کافی طویل عرصہ ہے جسے کم کیا جانا چاہیے۔
کمیٹی نے تاخیر سے کرشنگ کی صورت میں مداخلت کے لیے صوبوں کو فعال قانونی آلات فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور مشاہدہ کیا کہ سندھ کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی مثالی تھی کیونکہ اس میں کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی تھی اور فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950کلے تحت ہر سال چینی کے تحت کرشنگ کی تاریخ صوبائی کابینہ سے منظور کی جاتی تھی۔
ساتھ ہی تجویز دی گئی کہ گنے کی قیمتوں کا تعین سکروز کے مواد کے مطابق ہونا چاہیے اور صوبائی حکومت گنے کے کمشنروں کو سکروز کے مواد کی جانچ اور قیمتوں کے تعین کے نئے طریقہ کار پر عمل درآمد کے لیے جدید ترین آلات اور لیبارٹریز فراہم کرے۔
کمیٹی نے پانی کے حجم کی بنیاد پر قیمتیں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تا کہ مارکیٹ ناکامیوں اور خارجی عناصر کو دور کیا جاسکے جس سے گنے کی پیداوار کی اصل لاگت شامل کیا جائے۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو کمرشل بینکوں کو اپنے گروی رکھے گئے چینی کے اسٹاک کا معائنہ کرنے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور کین کمشنرز کے تعاون سے ان کی موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے ایڈوائزری جاری کرنا ہوگی۔