• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لاہور ہائی کورٹ: سابق چیئرمین نیب کی انکوائری روکنے کیلئے حکم امتناع کی درخواست مسترد

شائع August 3, 2022
سابق چیئرمین نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا ہے —فائل/فوٹو: ڈان نیوز
سابق چیئرمین نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا ہے —فائل/فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور ان پر الزامات عائد کرنے والے خاتون کے معاملے پر انکوائری روکنے کے لیے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

سابق چیئرمیں نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وکیل محمد صفدر شاہین پیرزادہ کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ میں انکوائر روکنے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست دائر کی ہے، جس میں کابینہ ڈویژن اور دیگر کو فریقین بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال پر عائد ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شان گل نے سابق چیرمین نیب جاوید اقبال کی درخواست پر سماعت کی اور انکوائری روکنے کے لیے فوری حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

سابق چیئرمین نیب نے موقف اختیار کیا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے دی ہے، وفاقی حکومت کا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا اقدام غیر قانونی ہے۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فریقین اسلام آباد میں ہیں، اس لیے مقدمہ رولپنڈی بینچ یا اسلام آباد کے پاس لگنا چاہیے۔

عدالت نے دائرہ اختیار کے اعتراض پر فریقین سے جواب داخل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 12 اگست تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 24 جولائی کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر طیبہ گل کی جانب سے عائد کیے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی اے سی کی جسٹس جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹانے کی سفارش

کابینہ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘وفاقی حکومت نے پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کی شق 3 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دی گئی ہے’۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘طیبہ گل کی جانب سے جسٹس (ر) جاوید اقبال اور دیگر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دی گئی ہے’۔

ومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے کمیشن میں دیگر دو اراکین میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سندھ کی رکن انیس ہارون اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پنجاب کے رکن ندیم اشرف شامل ہیں۔

کمیشن کو تحقیقات کے لیے قواعد و ضوابط بھی دیے گئے ہیں، جس کے تحت کمیشن درخواست گزار کی جانب سے جنسی جرائم سمیت ہراسانی، نشانہ بنانا، غصہ، بدتمیزی، بدنظمی اور اختیارات کے غلط استعمال کے عائد الزامات کی انکوائری کرے گا۔

ٹی او آرز میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن انصاف کی فراہمی، تحفظ، شفاف ٹرائل کا حق اور شہریوں کے ساتھ مساوات کے حوالے سے کسی قسم کی خلاف ورزی کا تعین کرے گا۔

کمیشن انکوائری کے بعد تعین کرے گا کہ جس کے خلاف درخواست دی گئی ہے وہ تعزیرات پاکستان 1860 ایکٹ میں درج کسی شق کے تحت کسی جرم میں مرتکب تو نہیں ہوئے۔

سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال اور طیبہ گل کے درمیان تعلقات کے حوالے سے 2019 میں ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی اور اس پر شدید تنقید ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: سابق چیئرمین نیب کی پی اے سی میں طلبی کےخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

جب یہ ویڈیو لیک ہوئی تھی اور اسی دوران طیبہ گل اور ان کے شوہر محمد فاروق نیب میں انکوائریز کا سامنا کر رہے تھے اور نیب نے لاہور کی احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرینس بھی دائر کردیا تھا۔

گزشتہ ماہ رپورٹس آئی تھیں کہ طیبہ گل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان کو ایک درخواست دی ہے، جس میں انہوں نے جسٹس(ر) جاوید اقبال اور نیب لاہور کے ڈی جی میجر (ر) شہزاد سلیم دیگر عہدیداروں کے خلاف انکوائری کی استدعا کی تھی کہ انہیں کرپشن کے ریفرنس میں ملوث کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی اے سی کو ڈی جی نیب لاہور کےخلاف کارروائی سے روک دیا

طیبہ گل نے پی اے سی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ جی میں نےسابق چئیرمین کے خلاف درخواست دائر کی تھی، مجھے کوئی کال اپ نوٹس نہیں ملا، میرے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کو نیب لاہور کے عہدیداروں نے گرفتار کیا، گرفتاری سے قبل سابق چئیرمین نیب سے دو روز پہلے فون پر جھڑپ ہوئی تھی، جس پر نور عالم خان نے استفسار کیا کہ آپ کے چئیرمین نیب کے ساتھ تعلقات کیسے بنے اور آپ سے براہ راست رابطے میں کیسے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024